یکساں سول کوڈ کا نفاذ اور بی ج پی پروفیسر نیلم مہاجن سنگھسپریم کورٹ کے جج جسٹس بی وی ناگر تھنا نے کہا تھا کہ یکسا سول کوڈ سے عورتوں کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنایا جانا چاہیے۔ بی جے پی کے تین مرکزی ایجنڈے تھے ۔ رام مندر، جموں وکشمیر سے دفعہ370اور 35اے کا خاتمہ اور
یکساں سول کوڈ کا نفاذ اور بی ج پی
پروفیسر نیلم مہاجن سنگھ
سپریم کورٹ کے جج جسٹس بی وی ناگر تھنا نے کہا تھا کہ یکسا سول کوڈ سے عورتوں کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنایا جانا چاہیے۔ بی جے پی کے تین مرکزی ایجنڈے تھے ۔ رام مندر، جموں وکشمیر سے دفعہ370اور 35اے کا خاتمہ اور تیسرا یکساں سول کوڈ کا اطلاق۔ جنوری 2024کو رام مندر کا افتتاح ہوگا۔ جموں وکشمیر سے 370کا خاتمہ ہوگیا۔ اب بس تیسرے ایجنڈے یعنی یکساں سول کوڈ کو نافذ کیا جانا باقی رہ گیا ہے۔ نریندر مودی نے نو سال کی مدت میں بی جے پی کے تینوں مرکزی ایجنڈوں کو لاگو کردیا ہے۔ مودی سرکار سول کوڈ کو نافذ کرنے کے لیے کوشاں ہے۔ جسٹس ارون کمار مشرا جو کہ قومی انسانی حقوق کمیشن کے صدر ہیں، نے یکساں سول کوڈ کے نفاذ کی کھل کر وکالت کی ہے۔
انہوںنے کہا ہے کہ یہ کسی بھی مذہب پر اثرانداز نہیں ہوگا۔ بلکہ خواتین کو یکساں حقوق دیے جانے کو یقینی بنائے گا۔ انہوںنے مزید اس بات پر اصرار کیاہے کہ سول کوڈ لاگو کرنے کے لیے مثبت قدم اٹھانا سرکار کا فرض ہے۔ اس سے قبل دہلی ہائی کورٹ کی جسٹس پرتبھا ایم سنگھ دو سال میں یکساں سول کوڈ لاگو کرنے کے احکامات دے چکی ہیں۔جسٹس ارون مشرا کے مطابق سول کوڈ لاگو کرنے کے وقت آگیا ہے۔ اس کو لاگو کرنے کے لیے آئین میں التزام کیا ہے۔ ان کا استدلال ہے کہ مختلف مذہبی رسومات کے نام پر خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جا رہا ہے جسے ختم کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ ’اس کے علاوہ اس سے مردوں کے سماج میں بالادستی بھی ختم ہوجائے گی۔ یکساں سول کوڈ کی مخالفت کرنے والوں کے پاس کوئی جواز نہیں ہے ‘۔ جب بھی کوئی اچھی بات آتی ہے تو ہمیشہ مخالفت ہی ہوتی ہے۔ جسٹس مشرا نے کہا کہ سول کوڈ کے اطلاق کے امکانات ہمیشہ سے موجود تھے، لیکن حکومت کو صرف وقت طے کرنا تھاکہ اس کو لاگو کیا جائے گا۔ اس وقت خواتین اپنے حقوق کے لیے جدوجہد رہی ہیں، انہیں برابری کا حق ملنا چاہیے۔
یکساں سول کوڈ خواتین کو عزت دے گا کیونکہ انہیں ایک طویل عرصے سے برابری سے محروم رکھا گیا ہے۔ بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ کروڑی لال مینا نے 09 نومبر 2022 کو راجیہ سبھا میں یکساں سول کوڈ سے متعلق پرائیویٹ ممبر بل پیش کیا۔ جس کی کانگریس، سماج وادی پارٹی، راشٹریہ جنتا دل اور ڈی ایم کے۔ اپوزیشن سمیت تمام جماعتوں نے مخالفت کی تھی۔ اگر یہ قانون لاگو ہوتا ہے تو اس کا اطلاق تمام شہریوں پر یکساں طور پر ہوگا۔ کسی مذہب، ذات، جنس کو اس سے چھوٹ نہیں ملے گی۔ اپوزیشن کا الزام ہے کہ حکومت ایک خاص مذہب کو نشانہ بنانے کے لیے یہ قانون لا رہی ہے۔ یکساں سول کوڈ خبروں میں ہے اور جسٹس پرتیبھا ایم سنگھ کی حکومت کو ہدایت کے بعد اس پر بحث ہو رہی ہے۔ نریندر مودی حکومت مشترکہ سول کوڈ کے نفاذ کی طرف بڑھ رہی ہے۔ جسٹس پرتیبھا ایم سنگھ نے ایک اہم حکم دیا تھا، جس کی وجہ سے ملک کی سیاست پھر سے گرم ہوگئی۔ ہندوستان میں فی الحال جائیداد، شادی، طلاق اور وراثت جیسے معاملات پر ہندوؤں، عیسائیوں، پارسیوں اور مسلمانوں کے لیے الگ الگ پرسنل لا ہیں۔اس کی وجہ سے اسی طرح کے معاملات کو حل کرنے میں پیچیدگیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یکساں سول کوڈ کے نفاذ کو لے کر ملک میں کافی عرصے سے بحث چل رہی ہے۔ خاص طور پر بی جے پی اس مسئلہ کو بھرپور طریقے سے اٹھا رہی ہے لیکن کانگریس اور دیگر اپوزیشن پارٹیاں اس کی مخالفت کرتی رہی ہیں۔
تین طلاق کو غیر قانونی قرار دے کر بی جے پی نے مسلم خواتین کو اپنا ووٹ بینک بنا لیا۔ اس کے سماجی اور مذہبی اثرات ہیں۔ سیاسی جماعتوں کی اپنی پالیسی اور فکر ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت کے پہلے اور دوسرے دور میں جن سنگھ سے بھارتیہ جنتا پارٹی تک غیر معمولی توسیع ہوئی ہے۔ دو بنیادی مقاصد کو نافذ کردیا گیا ہے۔ پہلا رام مندر کی تعمیر اور دوسرا کشمیر سے آرٹیکل 370 کا خاتمہ، وہاں صدر راج نافذ کرنا، لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا کی تقرری، کشمیری رہنماؤں کے ساتھ ہم آہنگی پیدا کرنے اور حل تلاش کرنے کی کوشش ہے اگرچہ راستہ مشکل ہے ۔ رام مندر کے معاملہ میں سپریم کورٹ کا 2:2 کا فیصلہ تھا۔ چیف جسٹس رنجن گگوئی نے رام مندر کے حق میں فیصلہ دیا تھا۔ جسٹس اشوک بھوشن اور جسٹس اروند بوبڈے نے حکومت کی طرف سے بابری مسجد کی زمین کو نوٹیفائی کیا اور وہاں رام مندر تعمیرکا فیصلہ کیا۔ چیف جسٹس جسٹس دھننجے وائی۔ چندر چوڑ اور جسٹس ایس عبدالنذیر نے اختلاف کیا اور دوسرا فیصلہ دیا۔ اس وجہ سے اس فیصلے میں جسٹس رنجن گگوئی کا رول فیصلہ کن تھا۔ گگوئی کے سیاسی کردار پر کئی سوالیہ نشان ہیں۔ انہیں فوری طور پر راجیہ سبھا کا رکن نامزد کر دیا گیا۔ کشمیر کا معاملہ بہت حساس مسئلہ ہے۔ اٹل بہاری واجپئی کی ’کشمیریت، جمہوریت اور انسانیت‘ کے اصول کو ’ایک قانون ‘ کے ذریعے نافذ کرنا مشکل ہے۔ اب کشمیر کو بھی مرکز کے زیر انتظام خطہ قرار دے دیا گیا ہے۔
جسٹس پرتیبھا ایم سنگھ نے کہا تھا کہ کامن سول کوڈ کو نافذ کرنے کا صحیح وقت آگیا ہے۔ عدالت نے سماعت کے دوران کہا کہ یکساں سول کوڈ جس کی آرٹیکل 44 کے تحت نفاذ کی بات کہی گئی تھی۔ اسے حقیقت کا جامہ پہنانا چاہیے۔ جسٹس پرتیبھا ایم سنگھ نے کہا، ’ہندوستانی سماج میں مذہب، ذات پات، شادی وغیرہ کی روایتی بیڑیاں ٹوٹ رہی ہیں۔ نوجوانوں کو مختلف پرسنل لا سے پیدا ہونے والے تنازعات کی وجہ سے شادی اور طلاق میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایسی صورتحال میں یکساں سول کوڈ پر عمل درآمد کرنے کا مناسب وقت آگیا ہے۔
عدالت نے مرکزی حکومت کو یکساں سول کوڈ کو لاگو کرنے کے لیے ضروری اقدامات کرنے کی ہدایت دی ہے۔ جسٹس پرتیبھا ایم سنگھ کی بنچ راجستھان کی مینا طبقہ کی خاتون اور اس کے ہندو شوہر کی طرف سے دائر طلاق کی عرضی پر سماعت کر رہی تھی۔ مختلف پرسنل لاز میں تضادات کی وجہ سے شہریوں کو تنازعات سے بچانا۔ عدالت نے ہدایت دی کہ اس حکم کی بابت مرکزی حکومت کی وزارت قانون و انصاف کو آگاہ کردیا جا ئے تاکہ وہ ضروری کارروائی کر سکیں۔ موجودہ کیس میں بھی مختلف قوانین کا تضاد سامنے آنے پر ہائی کورٹ نے یکساں سول کوڈ کو لاگو کرنے کا حکم دیا ہے۔ طلاق کے خواہش مند شوہر نے 2 دسمبر 2015 کو فیملی کورٹ میں طلاق کے لیے عرضی دائر کی۔ شوہر ہندو میرج ایکٹ کے مطابق طلاق چاہتا تھا۔ لیکن خاتون کا کہنا ہے کہ وہ مینا برادری سے تعلق رکھتی ہے، اس لیے اس پر ہندو میرج ایکٹ لاگو نہیں ہوتا۔ بعد میں فیملی کورٹ نے ہندو میرج ایکٹ 1955 کا حوالہ دیتے ہوئے درخواست کو خارج کر دیا۔ فیصلے میں کہا گیا کہ خاتون کا تعلق راجستھان کے درج فہرست قبائل سے ہے، اس لیے اس پر ہندو میرج ایکٹ لاگو نہیں ہوتا۔ خاتون کے شوہر نے فیملی کورٹ کے فیصلے کو 28 نومبر 2020 کو ہائی کورٹ میں چیلنج کیا۔
ہائی کورٹ نے شوہر کی عرضی کو قبول کرتے ہوئے دہلی عدالت کے فیصلے کو رد کرتے ہوئے کہا کہ ایسے معاملات کے لیے یکساں سول کوڈ کی ضرورت ہے، جو سب کے لیے برابر ہو۔ عدالت نے یہ بھی کہا کہ اس کے سامنے ایسی کوئی دستاویز پیش نہیں کی گئی جس سے یہ ظاہر ہو کہ مینا قبائلی برادری کے ایسے مقدمات پر سماعت کے لیے کوئی خصوصی عدالت موجود ہے۔ یونیفارم سول کوڈ کیا ہے؟ آئین کے آرٹیکل 36 سے 51 کے ذریعے ریاستوں کو کئی مسائل کے حل پر تجاویز دی گئی ہیں۔ جسٹس پرتیبھا ایم سنگھ نے اس قانون کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا، آئین کی دفعہ 44 کے تحت ریاست سے اپنے شہریوں کو یکساں سول کوڈ کے تحت تحفظ فراہم کرنے کی توقع رکھتا ہے۔ آرٹیکل 44 کے تحت ریاست کو مناسب وقت پر تمام مذاہب کے لیے یکساں سول کوڈ وضع کیا جائے۔ ملک میں یکساں سول کوڈ کا معاملہ پہلی بار 1985 میں شاہ بانو کیس کے بعد سامنے آیا تھا۔ سپریم کورٹ نے طلاق کے بعد شاہ بانو کے سابق شوہر کو نان نفقہ دینے کا حکم دیا تھا۔ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ یکساں سول کوڈ لاگو ہونا چاہیے۔ خفیہ ایجنسیوں نے آگاہ کیا تھا کہ سپریم کورٹ کے اس حکم سے مسلمانوں میں غصہ ہے۔ پھر راجیو گاندھی کی حکومت نے پارلیمنٹ میں بل پاس کر کے سپریم کورٹ کے فیصلے کو پلٹ دیا۔ اس کے بعد کیرالہ کے موجودہ گورنر عارف محمد خان نے لوک سبھا سے استعفیٰ دے دیا۔
1985 میں سپریم کورٹ کی طرف سے جاری کردہ ایک ہدایت کا حوالہ دیتے ہوئے، ہائی کورٹ نے مایوسی کا اظہار کیا کہ تین دہائیوں کے بعد بھی اسے سنجیدگی سے نہیں لیا گیا ہے۔ حال ہی میں سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس شرد اروند بوبڈے نے گوا کے یکساں سول کوڈ کی تعریف کی تھی۔ گوا میں پہلے سے ہی ایک یکساں سول کوڈ موجود ہے جیسا کہ آئین کے بنیاد کا روں نے تصور کیا ہے۔ مختصراً یہ کہنا مناسب ہوگا کہ پی ایم نریندر مودی کی پالیسیوں پر تنقید کی جائے یا تعریف، وہ بی جے پی کے تین اہم مقاصد کو عملی جامہ پہنانے میں کامیاب رہے۔ وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی نے بی جے پی کے اصولوں کو لاگو نہیں کر پاتے، حالانکہ انہوں نے لال کرشن اڈوانی کے ساتھ مل کر ان تینوں ایجنڈوں کو وضع کیا تھا ۔ لیکن اس کو پی ایم نریندر مودی نے ایک عملی شکل دی تھی۔ یہ کہنا غیر غلط ہو گا کہ مختلف ذاتیں، مذاہب، برادریاں ’ایک ملک، ایک قانون‘ کو کیسے قبول کریں گی۔ ہندوستان میں رنگا رنگی میں اتحاد ہے، لیکن اس بابت سیاسی طور پر فیصلہ کتنا کارآمد ہوگا، یہ تو وقت ہی بتائے گا۔ توقع ہے کہ یکساں سول کوڈ تمام مذاہب کے ماننے والوں کو یکساں سماجی انصاف فراہم کر سکے گا۔لوک سبھا الیکشن پر فیصلہ ضروراثر انداز ہوگا۔
(مضمون نگار سینئر صحافی، تجزیہ کار ہیں اور سالیڈیٹری فار ہیومن رائٹس سے وابستہ ہیں)
singhnofficial@gmail.com
Comments
Post a Comment