فرضی تنظیموں کے ذریعہ پی ایم مودی کے نام کا غلط استعمال قابل مذمت ہے۔
پروفیسر نیلم مہاجن سنگھ
اس جسیم محمد سے میرا تعارف ایک اردو ٹائپسٹ نے کرایاتھا۔ وہ کئی سینئر لوگوں کو دھوکہ دے رہا تھا۔ 'نمو اسٹڈی سینٹر'، جسے اب 'سینٹر فار نریندر مودی اسٹڈیز' (CNMS) کہا جاتا ہے، جسیم محمد نے قائم کیا تھا۔ حال ہی میں، اس مرکز کو وزیر اعظم کے دفتر سے موصول ہونے والی ایک شکایت کی بنیاد پر تحقیقات کا سامنا کرنا پڑا جس میں الزام لگایا گیا تھا کہ جسیم محمد نریندر مودی سینٹر کے نام اور حکومتی نشانات کا غلط استعمال کر رہے ہیں، جو کہ قواعد کی خلاف ورزی ہے۔ یہ کون شخص ہے جس نے بغیر اجازت پی ایم نریندر مودی کے نام پر ’نمو سینٹر‘ قائم کرنے کی جرأت کی؟ اس نے دہلی میں کئی تقریبات کا اہتمام کیا تھا، جس میں پروفیسر ایچ این شرما، اندرا گاندھی کلچرل سینٹر کے صدر رام بہادر اور دیگر کو مدعو کیا تھا۔ گورننس، ترقی اور قومی تعمیر سے متعلق موضوعات پر تحقیق، طلبہ کی مصروفیت اور علمی مکالمے کو فروغ دینے کی آڑ میں اسے زمین الاٹ کی گئی اور عطیات وصول کئے گئے۔ جسیم محمد نے انڈیا اسلامک کلچرل سینٹر سے ایک الیکشن لڑا اور ہار گئے۔ مرکزی تفتیشی بیورو (سی بی آئی) اس تنازعہ کی تحقیقات کر رہا ہے۔ اس فرد پر نشانات اور ناموں کے غلط استعمال کی روک تھام کے قانون 1950 (Emblems and Names Prevention of Improper Use Act, 1950)کی خلاف ورزی کا الزام ہے۔ سی بی آئی نے معاملے کی تحقیقات کے لیے ایف آئی آر درج کی ہے اور مرکزی حکومت کے ساتھ تعاون کا یقین دلایا ہے۔ بی جے پی ایم پی کنگنا رناوت نے جسیم محمد کے سینٹرسے شائع ہونے والی ہندی کتاب ''راشٹر پرتھم: نریندر مودی'' کی حمایت کی ہے، جس میں وزیر اعظم کی تقاریر شامل ہیں۔ یہ کتنا عجیب لگتا ہے؟ جسیم محمد پر الزام ہے کہ انہوں نے حکومتی اجازت کے بغیر وزیر اعظم کے نام اور حکومتی نشانات کو غیر قانونی طور پر استعمال کر کے قانون کی خلاف ورزی کی۔ اطلاعات کے مطابق، وزیر اعظم کے دفتر (پی ایم او) کی شکایت پر کارروائی کرتے ہوئے، سی بی آئی نے تفصیلی جانچ کے بعد 24 اکتوبر 2025 کو ایف آئی آر درج کی تھی۔ عہدیداروں نے بتایا کہ اس شخص نے مرکزی اور قومی پالیسی پر تحقیق کرنے کا دعویٰ کیا اور اس کی ویب سائٹ نے بی جے پی ایم پی کنگنا رناوت کا بھی ذکر کیا۔ تحقیقات میں پتہ چلا کہ جسیم محمد نے جنوری 2021 میں حکومت یا پی ایم او سے اجازت لیے بغیر CNMS کو ٹرسٹ کے طور پر رجسٹرڈکرایا۔ سی بی آئی کا کہنا ہے کہ مرکز کی جانب سے وزیر اعظم کے نام اور تصاویر کے استعمال سے عوام میں یہ غلط فہمی پیدا ہوئی کہ حکومت اس تنظیم اور فرد کی حمایت کر رہی ہے۔ ملزم جسیم محمد سے اس کے وسیع نیٹ ورک اور رابطوں کے حوالے سے تفتیش کی جا رہی ہے۔ وہ کئی سینئر لوگوں کو دھوکہ دے رہا تھا۔ نمو اسٹڈی سینٹر، جسے اب سینٹر فار نریندر مودی اسٹڈیز (CNMS) کہا جاتا ہے، جس کی بنیاد علی گڑھ کے جسیم محمد نے رکھی تھی۔ اس نے دہلی میں ایچ این شرما، عارف محمد خان، اور اندرا گاندھی کلچرل سینٹر کے صدر رام بہادر کو مدعو کرتے ہوئے کئی تقریبات کا اہتمام کیا۔۔ حیرت کی بات ہے کہ یہ فرضی تنظیم ریاستی اور مرکزی حکومتوں کی جانچ سے بچنے میں کس طرح کامیاب رہی۔ اس جسیم محمد کو آر ایس ایس کے مسلم راشٹریہ منچ کے صدر ڈاکٹر اندریش کمار کے ساتھ بھی دیکھا گیا۔ ڈاکٹر اندریش کمار تمام برادریوں کے لوگوں سے ملتے ہیں، لیکن یہ شخص اندریش کمار کے سماجی کاموں میں اپنی رسائی کا دکھا وا کرتا
رہاہے۔
جسیم محمد نہ تو اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں اور نہ ہی کوئی بڑا کارنامہانہوں نے انجام دیا ہے، بلکہ وہ خود کو فروغ دینے والا شخص ہے جو ہندوستان کے وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ اپنی قربت کا اظہار کر رہا ہے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں جسیم محمد اے ایم یو کے طلباء کی چاپلوسی کرتا رہا تھا۔ اوردعویٰ کرتا تھا کہ وہ بی جے پی کا لیڈر ہے جس کا تعلق وزیر اعظم نریندر مودی سے ہے۔ آخرکار وہ مشکل میں پھنس گیا ہے۔ حالانکہ سی بی آئی نے جسیم محمد کے خلاف ایف آئی آر درج کر لی ہے لیکن آج تک اسے گرفتار کیوں نہیں کیا گیا؟ اس سے یہ غلط پیغام جاتا ہے کہ کوئی بھی بہروپیا ہندوستان کے وزیر اعظم کا نام استعمال کرکے اپنی جھوٹی برانڈنگ کے ذریعہ ہونے والے ذاتی فائدے کی آڑمیں بچ سکتا ہے۔ بہروپئے کی چالیں بالآخر بے نقاب ہو گئیں۔ یہاں تک کہ اس نے ایک قسم کی ''اردو جامعہ اکیڈمی'' بھی قائم کی ہے، جس کے ذریعے وہ اپنا نام بنانے کے لیے کچھ ممتاز شخصیات کو ڈاکٹریٹ اور ڈی لِٹ کی ڈگریاں مفت میں تقسیم کرتا ہے۔ کنگنا رناوت جو مکمل طور پر ناخواندہ ہیں،کیسے وہ وزیر اعظم نریندر مودی کی تقاریر پر کتاب ایڈٹ کرلی؟ 'مودی نامو سینٹر' ایک بڑا گھوٹالہ لگتا تھا، لیکن حکومت پچھلے تین سالوں سے اس پر کیوں سوئی ہوئی تھی؟ مجھے اس آدمی پر تقریباً دو سال پہلے دھوکہ دہی کا احساس ہوا جب وہ صبح سے شام تک پریس کلب آف انڈیا میں بیٹھا بار بار وزیر اعظم نریندر مودی کا نام استعمال کرتا رہا۔ میں سوچ رہی تھی کہ ایسے فراڈیوں کا میڈیا سے کیا تعلق؟ مجھے معلوم ہوا کہ جب ایک اردو اخبار بحران کا شکار تھا تو اسے مختصر عرصے کے لیے قائم مقام نیوز ایڈیٹر مقرر کیا گیا تھا۔ تاہم اسے اتنی ہی جلدی ہٹا دیا گیا۔ کسی بھی
وزیر اعظم یا معزز شخصیت کے نام کا غلط استعمال کرنا، خاص طور پر موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی کی اجازت کے بغیر، قابل اعتراض ہے۔ یہ واقعی افسوسناک ہے کہ ایسے گھپلے کرنے والے آزاد گھوم رہے ہیں جبکہ ایماندار اور محنتی لوگ وزیر اعظم کے دفتر کی نظروں سے اوجھل ہیں۔ چاہے وہ ہندو ہوں، مسلمان ہوں، سکھ ہوں یا عیسائی، دانشوروں کے لیے کوئی آسان راستہ نہیں ہے۔ یہ اور بھی شرمناک ہو جاتا ہے جب جعلی تنظیمیں بنائی جائیں اور وزیر اعظم کا نام ذاتی فائدے کے لیے استعمال کیا جائے۔ جسیم محمد نے اگر کوئی این جی او یا تنظیم بنائی تو بھی موجودہ وزیراعظم کے دفتر سے اجازت لینا لازمی تھا۔ کم از کم حکومت کو ہوشیار رہنا چاہیے۔ ملک کے مختلف حصوں میں کام کرنے والے ایسے فراڈیوں کو بے نقاب کیا جائے۔ اس سے ایسی غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث افراد کے لیے ایک مضبوط سبق ہونا چاہیے۔ حکومت نے سی بی آئی کے ذریعے ایسے افراد سے دور رہنے کا اعلان کیا ہے۔ پروفیسر ایچ این شرما کو ایسے افراد کی سرپرستی نہیں کرنی چاہیے۔ امید ہے کہ اس سخت کارروائی سے جعلی تنظیموں پر لگام لگ جائے گی۔
پروفیسر نیلم مہاجن سنگھ
(سینئر صحافی، سیاسی تجزیہ کار، ماہر تعلیم، ٹیلی ویژن کی شخصیت، انسانی حقوق کے تحفظ کی وکیل،)
Neelam Mahajan Singh Professor
singhnofficial@gmail.com
PM Narendra Modi Press Information Bureau - PIB, Government of India Salman Khurshid India Islamic Cultural Centre Iiccentre Delhi Fcc South Asia #MinistryOfHomeAffairs Tanveer Khan #CBI #ConMan Press Club Of India Sirajuddin Qureshi Arif Hussain Sikander Hayat Bahar U Barqi
Comments
Post a Comment