جسٹس سنجیو کھنہ: آئین کے بنیادی حقوق کے تئیں مخلصپروفیسر نیلم مہاجن سنگھ

51st Chief Justice  The Supreme Court of India: Justice Sanjiv Khanna 
جسٹس سنجیو کھنہ: آئین کے بنیادی حقوق کے تئیں مخلص
پروفیسر نیلم مہاجن سنگھ

جسٹس سنجیو کھنہ نے عدالتی نظام میں ایک اہم پیغام دیا کہ چاہئے پریس میں جتنا بھی صحیح یا غلط شائع ہو، ججوں کو اس سے خوفزدہ نہ ہوکر اپنے فرائض انجام دیتے رہنا چاہئے۔ ساتھ ہی سینئروکیلوں کے جھوٹے حقائق پیش کرنے پر ان کی سرزنش بھی کی۔سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے زیراہتمام جذباتی الوداعی پروگرام میں جسٹس سنجیو کھنہ نے سبھی وکلا کا شکریہ ادا کیا۔ جسٹس کھنہ نے کہاکہ ’آپ کی سخت محنت کے بغیر انصاف کی فراہمی ممکن نہیں ہے۔ میں نے ابھی تک اپنے کو ایک غیر جانبدار وکیل ہی ماناہے‘۔ جسٹس سنجیو کھنہ 14 مئی 1960 کو پیدا ہوئے تھے اور انہوں نے 1977 میں ماڈرن اسکول، 1980 میں سینٹ اسٹیفن کالج سے گریجویشن کیا اور کیمپس لاء سینٹر سے قانون کی تعلیم حاصل کی۔ 1983 میں دہلی بار کونسل میں بطور وکیل نامزد ہوئے۔جسٹس سنجیو نے 1993 میں اندرانی سے شادی کی اور ان کے دو بچے ہیں۔ ان کی ایک بیٹی ’ویدھی‘ہیں۔جسٹس سنجیوکھنہ سپریم کورٹ آف انڈیا کے 51 ویں چیف جسٹس رہے ہیں۔ انہیں 18 جنوری 2019 کو سپریم کورٹ آف انڈیا میں پرموشن دیاگیاتھااور وہ نیشنل لیگل سروسز اتھارٹی (NALSA) کے چیف سرپرست اور نیشنل جوڈیشل اکیڈمی، بھوپال (NJA) کے صدر ہیں۔ وہ 17 جون 2023 سے 25 دسمبر 2023 تک سپریم کورٹ لیگل سروسز کمیٹی (SCLSC) کے صدر اور 26 دسمبر 2023 سے 10 نومبر 2024 تک NALSA کے قائم مقام صدر بھی رہے ہیں۔ دہلی کی ضلعی عدالتوں میں پریکٹس کرنے کے بعد انہوں نے بنیادی طور پر دہلی ہائی کورٹ میں پریکٹس کی۔ پریکٹس کے دوران انہوں نے آئینی قانون، براہ راست ٹیکس، ثالثی، تجارتی قانون، کمپنی قانون، زمینی قانون، ماحولیاتی تحفظ کے قانون اور طبی لاپروائی سے متعلق مختلف موضوعات اور مقدمات کو نمٹایا۔ انہوں نے دہلی ہائی کورٹ میں ’ایڈیشنل پبلک پراسیکیوٹر‘کے طور پر کام کیا۔ ’امیکس کیوری‘ کے طورپر انہوں نے کئی فوجداری مقدمات اور عوامی اہمیت کے معاملات میں دہلی ہائی کورٹ کی مدد کی۔ 20 فروری 2006 کو وہ دہلی ہائی کورٹ میں جج بنے۔ جسٹس سنجیو کھنہ کو بطور جج ان کی مدت ملازمت اور دہلی جوڈیشل اکیڈمی (DJA)، دہلی انٹرنیشنل آربٹریشن سینٹر (DIAC) اور ڈسٹرکٹ کورٹ ثالثی مراکز کے صدر؍ انچارج جج کے طور پر خدمات انجام دینے کے لیے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ وہ 13 مئی 2025 کو ریٹائر ہونے والے ہیں۔ ان کے والد جسٹس دیو راج کھنہ تھے اور والدہ سروج کھنہ لیڈی شری رام کالج میں ہندی لیکچرار کے طور پر کام کرتی تھیں۔ جسٹس سنجیو کھنہ کے چچا جسٹس ہنس راج کھنہ تھے، جو سپریم کورٹ آف انڈیا کے سابق جج تھے، جنہوں نے 1973 میں آئین کے ’بنیادی ڈھانچے کا اصول‘ پیش کیا اور 1976 میں اے ڈی ایم ’جبل پور بنام شیو کانت شکلا‘ معاملے میں واحد اختلافی فیصلہ سنایا جسے ’ہیبیس کارپس معاملے‘ کے نام سے جاناجاتا ہے۔ اس وقت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی کی حکومت نے جسٹس ایم ایچ بیگ کو چیف جسٹس آف انڈیا مقرر کیا تھا۔ جس کی مخالفت کرتے ہوئے جسٹس ہنس راج کھنہ نے 1977 میں عدالت سے استعفیٰ دے دیاتھا۔جسٹس سنجیو کھنہ اور جسٹس اندو ملہوترہ نے ایک ساتھ ہی دہلی یونیورسٹی کی لاء فیکلٹی میں تعلیم حاصل کی تھی۔ صدر دروپدی مرمو نے جسٹس سنجیو کھنہ کو چیف جسٹس آف انڈیا کے عہدے کا حلف دلایا۔ راشٹریہ پتی بھون میں منعقدہ ایک تقریب کے دوران 11 نومبر 2024 کو چیف جسٹس دھننجے وائی چندرچوڑکے ریٹائرمنٹ کے بعد جسٹس کھنہ نے ہندوستان کے 51ویں چیف جسٹس کے طور پر حلف لیا۔
 چیف جسٹس سنجیو کھنہ کے والدین چاہتے تھے کہ وہ چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ بنیں۔چیف جسٹس کے طورپر جسٹس کھنہ نے زیرالتوا مقدمات کو کم کرنے پر توجہ دی۔ جسٹس سنجیو کھنہ نے 33 معاملے ’فاسٹ ٹریک‘ کئے ۔ جسٹس کھنہ 173 فیصلے لکھ چکے ہیں اور اب تک 482 بنچوں کا حصہ رہے ہیں۔ جسٹس سنجیو کھنہ نے بنیادی طور پر فوجداری مقدمات (21فیصد)، ٹیکس (13فیصد)، دیوانی (9فیصد)، کمپنی (5فیصد) اور سروسز (4.8فیصد) معاملات میں فیصلے لکھے ہیں۔’ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارمس بنام الیکشن کمیشن آف انڈیا‘ (2024) میں، جسٹس کھنہ کی قیادت والی ایک بنچ نے الیکٹرانک ووٹنگ  مشینوں پرڈالے گئے ووٹوں کے 100 فیصد VVPAT ’ویریفکیشن‘ کی  مانگ کرنے والی ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارمس (اے ڈی آر) کی درخواست کو اتفاق رائے سے خارج کردیا۔اہم رائے لکھتے ہوئے جسٹس کھنہ نے لکھا کہ وہ ’آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کو یقینی بنانے کے لیے ای سی آئی کے ذریعہ اپنائے گئے سبھی حفاظتی انتظامات کو ریکارڈ میں رکھنا چاہتے ہیں‘۔ ای وی ایم کی خصوصیات کوکم کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ موجودہ نظام ’ووٹوں کی فوری، غلطی سے پاک اور شرارت سے پاک گنتی کو یقینی بناتا ہے۔ ‘2024 میںپانچ ججوں کی بنچ نے انتخابی بانڈ اسکیم کو غیر آئینی قرار دیا۔ جسٹس دھننجے یشونت چندرچوڑ کی بنچ میں جسٹس کھنہ نے اتفاق کرتے ہوئے لکھاکہ اگرچندہ بینکنگ چینل کے توسط سے دیاجاتاہے توعطیہ دہندگان کی رازداری کا حق پیدا نہیں ہوتاہے۔اس آدمی اوربینک کے اہلکاروں کوغیر مساوی طور پرجانکاری ہوتی ہے،جہاں سے بانڈ خریداجاتا ہے‘۔انہوں نے یہ بھی مانا کہ عطیہ دہندگان کے خلاف انتقامی کارروائی، ہراساں کرنا اور بدلہ لینا غلط ہے، لیکن وہ اس اسکیم کا جواز نہیں بن سکتے جو رائے دہندگان کے اجتماعی حق اطلاعات کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔جسٹس کھنہ نے پانچ ججوں کی بنچ کے فیصلے سے اتفاق کرتے ہوئے ایک رائے لکھی جس میں آرٹیکل 370 کی منسوخی کے جواز کو برقرار رکھاگیا۔ انہوں نے پایا کہ ہندوستان کے آئین کا آرٹیکل 370غیرمساوی وفاق کی خصوصیت تھا اورمقتدر اعلیٰ کااشارہ نہیں تھا۔اس کی منسوخی وفاقی ڈھانچے کی نفی نہیں کرتی ہے۔2003میں شلپا شیلیش بنام ورون سری نواسن میں جسٹس کھنہ نے اکثریتی رائے سے لکھا ، جس میں کہاگیا کہ آئین کے آرٹیکل 142 کے تحت سپریم کورٹ کو سیدھے  طلاق دینے کا اختیار ہے۔ جسٹس کھنہ نے دلیل دی کہ سپریم کورٹ ’مکمل انصاف‘ فراہم کرنے کے لیے ’شادی کے ناقابل واپسی خاتمے‘ کی بنیاد پر طلاق دے سکتا ہے۔2022 کے ثالثوں کے لیے فیس کے پیمانے میں ترمیم کے فیصلے میں جسٹس کھنہ نے اس محدود نکتے پر غیر متفقہ رائے لکھی ۔ ’ثالثی معاہدے کی عدم موجودگی میں، ثالثی ٹریبونل ایک مناسب فیس طے کرنے کا حقدار ہے۔‘جسٹس سنجیو کھنہ نے 2019کے CPIO، سپریم کورٹ بنام سبھاش چندر اگروال کے فیصلے میں اکثریتی رائے لکھی، جو ’آر ٹی آئی‘فیصلے کے طورپرمعروف ہے۔ 5 ججوں کی بنچ کو یہ طے کرنا تھا کہ کیا چیف جسٹس کے دفتر کو آر ٹی آئی درخواستوں کے ماتحت کرنا عدلیہ کی آزادی کوکم کرتاہے۔ جسٹس کھنہ نے لکھا کہ عدالتی آزادی حق اطلاعات کی مخالفت نہیں کرتی ہے ۔ او سی جے کو آر ٹی آئی کی درخواستوں کو پورا کرنا چاہیے یا نہیں اس کا فیصلہ ہر معاملے کی بنیاد پر کیا جانا چاہیے۔ فیصلے نے یہ بھی نتیجہ اخذ کیا کہ عدالت کے چیف پبلک انفارمیشن آفیسر کو ججوں کے رازداری کے حق کے خلاف یہ طے کرنا چاہیے کہ انکشاف وسیع تر عوامی مفاد میں ہے یا نہیں۔ ان کے ذریعہ سنائے گئے کچھ تاریخی فیصلوں میں ثالثی ایوارڈ میں ترمیم کرنے کے عدالتی اختیار، ووٹر کی تصدیق کے لیے VVPAT، ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارمس بنام الیکشن کمیشن آف انڈیا،ثالثی اور مفاہمت ایکٹ 1996 اور انڈین اسٹامپ ایکٹ 1899 کے تحت ثالثی معاہدوں کے درمیان تعامل، آرٹیکل 370 کی منسوخی کو چیلنج، گرفتاری کے خلاف سابقہ چھوٹ، سی بی آئی، وی آر کشور، بھوپال گیس سانحہ کے متاثرین کے لیے اضافی معاوضہ، یونین آف انڈیا بنام یونین کاربائیڈ، داؤدی بوہرہ کمیونٹی کے اراکین کا بائیکاٹ، سینٹرل بورڈ آف داؤدی بوہرہ کمیونٹی بنام ریاست مہاراشٹر،سپریم کورٹ کے سیدھے طلاق دینے کے  اختیار، شلپا شیلیش بنام ورون سری نواسن، آل انڈیا بار کو چیلنج، سابق وزیر اعظم بار کونسل آف انڈیا بنام بونی لا کالج،ثالثوں کے لئے فیس اسکیل میں ترمیم، آئل اینڈ نیچرل گیس کارپوریشن بنام آفکانس گونانوسا جے وی، زنا کی قانونی حیثیت، جوزف شائن بنام یونین آف انڈیا، آر ٹی آئی اور عدالتی آزادی، سینٹرل پبلک انفارمیشن آفیسر، سپریم کورٹ آف انڈیا بنام سبھاش چندر اگروال،الیکٹورل بانڈیوجناکی قانونی حیثیت، سندیپ ونودکمارسنگھ بنام الیکشن کمیشن آف انڈیا،اے ایم یو،اقلیتی درجے اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اپنے رجسٹرار فیضان مصطفی بنام نریش اگروال کے توسط سے این چندرا بابو نائیڈو بنام یونین آف انڈیا، وقف (ترمیمی) ایکٹ، 2025 کی آئینی حیثیت، تمل ناڈو سیمنٹس کارپوریشن لمیٹڈ بنام مائیکرو اینڈ اسمال انٹرپرائزز کونسل اوردیگر، کلکتہ ہائی کورٹ کے احکامات کے ٹکرائوکا نوٹس لینا، نبام ریبیا میں سپریم کورٹ کے فیصلے پر نظر ثانی، سبھاش دیسائی بنام مہاراشٹر کے گورنر کے پرنسپل سیکریٹری، آرٹیکل 194 کے تحت قانون سازوں کو چھوٹ اور اظہار رائے کی آزادی، این روی بنام اسمبلی اسپیکر چنئی وغیرہ معاملوں میں تاریخی فیصلے لوگوں کے لئے ہمیشہ رہنمائی کا ذریعہ بنیں گے۔جسٹس کھنہ اپنی مدت کار کے آخری دن تک معاملوں کی سماعت کریں گے۔جسٹس سنجیوکھنہ کے انصاف پر مبنی ،جذبات کو سلام۔45سالوں تک عدالت سے جڑے رہتے ہوئے وہ آنے والے وقت میں بھی لوگوں کے لئے مشعل راہ ثابت ہوں گے۔
مضمون نگار سالیسٹر ، انسانی حقوق رضاکار سیاسی  تجزیہ نگار ہیں اور دور درشن سے وابستہ رہی ہیں۔ 
singhnofficial@gmail.com
PROF. NEELAM MAHAJAN SINGH 
(Sr. Journalist, Author, Doordarshan personality, political analyst, global strategic affairs expert,  Solicitor for Human Rights Protection and Philanthropist)
singhnofficial@gmail.com 

Comments