Article of Prof. Neelam Mahajan Singh انسانیت کے مفاد میں یوکرین ۔روس جنگ بندیپروفیسر نیلم مہاجن سنگھ
انسانیت کے مفاد میں یوکرین ۔روس جنگ بندی
پروفیسر نیلم مہاجن سنگھ
سب سے پہلے ماہ رمضان کی دنیا بھر کے مسلم بھائی بہنوں کو مبارک باد۔ میری دعا ہے کہ اللہ آپ کو صحت اوربرکت عطا فرمائے۔ اس مضمون میں بین الاقوامی ایشوز کی گرما گرمی دنیا کی سرخیاں ہیں۔ ویسے اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکہ اپنے ہتھیاروں کو فروخت کرنے کی دوڑ میں سب سے آگے ہے۔ عالمی امن کی بات کرنے والے ہی عالمی جنگ کی بات کر رہے ہیں۔ کیسے بگڑی زیلنسکی- ٹرمپ کی بات ؟ وینس نے ایسا کیا کہا کہ شروع ہوگئی بحث؟ ٹر مپ اور زیلنسکی ،روس ویوکرین کے بیچ جنگ کو ختم کرنے کی کوششوں اور یوکرین کی معدنیات تک امریکی رسائی پربات چیت کرنے کے لئے ملے ، اوول آفس، واشنگٹن میں ٹرمپ اورزیلنسکی ملے تھے۔امریکہ نے زیلنسکی پر توہین آمیز سلوک کرنے کا الزام لگایا۔ روس کے معاملے پر دونوں کے درمیان اختلافات کھل کر سامنے آگئے۔ روس کے ساتھ جاری جنگ کے درمیان یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے بھی امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ سے لڑائی مول لے لی ہے ۔ اوول آفس میں میٹنگ کے دوران ہوئی گرما گرم بحث کے بعد امریکہ- یوکرین کے درمیان اختلافات کھل کر سامنے آگئے ہیں۔
ڈونالڈ ٹرمپ کے ذریعہ زیلنسکی کو ’ڈکٹیٹر‘ کہے جانے کے بعد اس میٹنگ میں دونوں کے درمیان تنائو اس قدر بڑھ گیا کہ زیلنسکی میٹنگ کے لئے مقررہ وقت سے پہلے ہی یوایس-یوکرین کے لیے اہم معدنیاتی معاہدے پر دستخط کیے بغیرہی وہائٹ ہاؤس سے چلے گئے۔ امریکہ اپنی استعماری خارجہ پالیسی کونافذ کررہا ہے۔ نائب صدر جے ڈی وینس کے ساتھ بحث شروع ہوئی، بعد میں ٹرمپ کے کود نے سے بین الاقوامی سفارتی معیار میں گراوٹ آئی ہے۔ کہنے کو وزیراعظم نریندر مودی نے بھی یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ روسی صدر ولادیمیر پوتن سے بات چیت کریں گے۔ ٹرمپ اور زیلنسکی کے درمیان وہائٹ ہاؤس میں میٹنگ تقریباً 45 منٹ تک جاری رہی، لیکن آخری 10 منٹ میں بنتی ہوئی بات بگڑ گئی۔ دونوں لیڈروں کے درمیان میٹنگ کسی اتفاق رائے پر پہنچنے کے بجائے کشیدگی انتہا کو پہنچ گئی۔ دراصل جے ڈی وینس نے کہا کہ ’جنگ کو سفارت کاری کے ذریعہ ختم کیا جانا چاہیے‘۔ اس پر زیلنسکی نے وینس پر قابل احترام طریقے سے پیش نہ آنے کا کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ ’ کس طرح کی سفارتکاری؟‘یوکرین کے صدر زیلنسکی نے کہا کہ 2014کے دوران روسی صدر ولادیمیر پوتن نے یوکرین کے بڑے حصے پر قبضہ کرلیا،تب انہیں (پو تن) کسی نے نہیں روکا۔ 2019 میں جنگ بندی کے لئے ایک معاہدے پر دستخط کیے، جسے بعد میں روس نے توڑ دیا۔ یوکرینی لوگوں کومارڈالا اور قیدیوں کا تبادلہ نہیں کیا گیا۔ ایسے میں کس طرح کی سفارتکاری کی بات ہورہی تھی۔ اس دوران انہوں نے سیکورٹی کی گارنٹی کا مطالبہ کیا۔ زیلنسکی کو جواب دیتے ہوئے امریکی نائب صدر جے ڈی وینس نے کہاکہ ’میںاس طرح کی سفارت کاری کے بارے میں بات کر رہا ہوں، جو آپ کے ملک کی تبا ہی کو روکنے جارہی ہے۔آپ کو امریکی صدر ٹرمپ کا شکریہ ادا کرنا چاہیے۔ امریکی ریاست اوول آفس میں آنا اوراس انتظامیہ پر حملہ کرنا توہین آمیز ہے،جوآپ کے ملک کی تباہی کو روکنے کی کوشش کررہی ہے۔آگے ٹرمپ بھی اس بحث میں کود گئے۔انہوں نے تیز آواز میں زیلنسکی کی طرف انگلی اٹھاتے ہوئے کہا کہ آپ اچھی پوزیشن میں نہیں ہیں، روس کے ساتھ آپ کو سمجھوتہ کرنا پڑے گا۔زیلینسکی پرشکر گزار ہونے کا پر دباؤ ڈالا گیا۔ امریکہ محسوس کررہا ہے کہ زیلنسکی ڈکٹیٹ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ زیلنسکی نے کہا کہ شروعات سے بات چیت کرنی چاہیے۔ جنگ سے ہر کسی کودقت ہوتی ہے لیکن یوکرین کے پاس خوبصورت سمندر ہے۔ ایک دن امن کے قیام کی کوششیں ناگزیر ہیں۔ یہ مستقبل میں محسوس ضرور ہوگا۰ ٹرمپ نے کہاکہ مجھے نہ بتائیں کہ ہمیں کیا محسوس ہوگا،ہم مسئلہ کے حل کی کوشش کر رہے ہیں۔ ناراض صدرٹرمپ نے آگے کہا کہ آپ کے ہاتھ میں کچھ نہیں بچا ہے۔
یوکرین تیسری عالمی جنگ کاجوا کھیل رہا ہے۔ اس طرح کام کرنا ممکن نہیں ہے۔آگے زیلنسکی نے اپنی بات رکھنے کی کوشش کی۔ انہوں نے جنگ بندی معاہدے کی مخالفت کی۔ زیلنسکی نے کہا کہ وہ کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔ کیف پوسٹ کے مطابق، زیلنسکی نے کہاکہ ’ہمیں صرف جنگ بندی کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم پہلے بھی ایسا کر چکے ہیں، لیکن انہوں نے ہر بار معاہدے کو توڑاہے۔‘ اس کے ساتھ زیلنسکی نے ٹرمپ کو جنگ سے متعلق کچھ تصاویر بھی دکھائیں۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ پوتن اب تک 25 مرتبہ معاہدے کی خلاف ورزی کر چکے ہیں۔ روسی صدر ولادیمیر پوتن کو قاتل اور دہشت گرد بتاتے ہوئے زیلنسکی نے ٹرمپ کوبھی ان کے ساتھ نرمی برتنے سے خبردار کیا۔ زیلنسکی نے ٹرمپ سے کہا کہ وہ پوتن کے ساتھ کسی قسم کا سمجھوتہ نہ کریں۔ ٹرمپ نے کہا کہ روسی صدر ولادیمیر پوتن کے خلاف سخت رہنے سے روس اور یوکرین کے درمیان امن معاہدے میں مدد نہیں ملے گی۔ ٹرمپ نے ان خدشات کو مسترد کر دیا کہ وہ روسی لیڈر کے ساتھ خودبہت زیادہ جوڑ تے ہیں۔ ٹرمپ نے کہا کہ ’آپ چاہتے ہیں کہ میں پوتن کے بارے میں بری باتیںکہوں اور پھر ان سے سودا کرنے کی کوشش کروں، لیکن ایسا نہیں ہوتا، میں پوتن کے ساتھ اتحاد نہیں کررہاہوں، میں کسی کے ساتھ اتحاد نہیں کررہاہوں، میں ریاستہائے متحدہ امریکہ کے ساتھ اتحاد میں ہوں اور میں دنیا کی بھلائی کے لیے بات چیت میں شامل ہوں۔‘ پوتن کے لئے ان کے (یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی) دل میں جو نفرت ہے اس طرح کی نفرت ساتھ معاہدہ کرنا میرے لئے بہت مشکل ہے۔
ٹرمپ نے کہا کہ ’میں دنیا اوریوروپ کے ساتھ جڑا ہوا ہوں، میں دیکھنا چاہتاہوں کہ ہم اسے حل کرپاتے ہیں یا نہیں‘۔ٹرمپ نے زیلنسکی پر معدنیات کا معاہدہ کرنے کے لئے بھی دباؤ ڈالا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر وہ معاہدہ نہیں کرتے ہیں تو امریکہ روس- یوکرین جنگ سے الگ ہو جائے گا اور ان کی کسی طرح کی مدد نہیں کرے گا۔ دراصل ٹرمپ چاہتے ہیں کہ جو بائیڈن انتظامیہ نے اب تک یوکرین کی پیسے اور ہتھیار سے جو مدد کی ہے، اس کے بدلے میں یوکرین امریکہ کواپنی معدنیات تک پہنچنا آسان بنائے۔ ڈونالڈ ٹرمپ سے تیسری بحث کے بعد بھی زیلنسکی نے اپنے تیور نہیں بدلے۔ اوول آفس میں جو ہوا اس کا طویل عرصہ سے انتظار تھا۔زیلنسکی نے فاکس نیوز سے کہا کہ بے شک جنگ کے وقت کے اتحادیوں کے درمیان تعلقات کو ٹھیک کیا جا سکتا ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ امریکہ کی توسیع پسندانہ پالیسی اور ’بگ برادر‘ کا رویہ بین الاقوامی سفارتی ماہرین کے لیے نئی بات نہیںہے۔ یوکرینی صدر کو ریاستہائے متحدہ شرکت دار کے طور پر کھونا نہیں چاہئے۔ ساتھ ہی انہیں ٹرمپ کو اپنے ساتھ رکھنا ہوگا۔ اے پی کی رپورٹ کے مطابق زیلنسکی نے کہا کہ یوکرین روس کے ساتھ امن بات چیت میں تب تک شامل نہیں ہوگا جب تک کہ اسے کسی دیگرحملہ آور کے خلاف سیکورٹی گارنٹی نہ مل جائے۔
زیلنسکی -بریٹ بے ایئرانٹرویوکی اہم باتیں یہ ہیں کہ صدرزیلنسکی نے ڈونالڈ ٹرمپ سے معافی مانگنے سے انکار کر دیا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے ساتھ تنازع دونوں فریقوں کے لیے اچھا نہیں تھا۔ اس طرح کے ذاتی اختلافات کوبھول کر یوکرین -روس جنگ کا ختم ہونا انسانیت کے مفاد میں ہو گا۔ ڈونالڈ ٹرمپ کو بھی یہ بات چیت میڈیا کے درمیان نہیں کرنی چاہئے تھی۔امید ہے کہ جلد ہی ناٹو اور یوروپی یونین بھی اس میں شامل ہو کر امن کا راستہ ہموار کرے گی۔
مضمون نگار سالیسٹر ، انسانی حقوق رضاکار سیاسی تجزیہ نگار ہیں اور دور درشن سے وابستہ
رہی ہیں۔ .
Prof. Neelam Mahajan Singh
Comments
Post a Comment