سرکاری اراضی کنٹرول اور وقف بورڈ ترمیمی بل
پروفےسر نےلم مہاجن سنگھ
حال ہی میں پارلیمانی پینل نے وقف (ترمیمی) بل پر رپورٹ کو منظوری دی ہے اور اسے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں پیش کردےا ہے۔ اپوزیشن نے اس کے التزامات کو ’غیر آئینی‘قرار دیا ہے۔ کمیٹی نے اگست 2024 میں اپنی تشکیل کے بعد سے دہلی میں 38 میٹنگیں کیں۔ اپنے نتائج پر پہنچنے کے لیے اسٹیک ہولڈرز سے مشورہ کرتے ہوئے پورے ملک کا دورہ کیا۔ 29 جنوری 2025 کو جوائنٹ کمیٹی کی تجاویز پر بحث ہوئی۔ وقف (ترمیمی) بل 2024 پر پارلیمنٹ کی جوائنٹ کمیٹی نے رپورٹ کو اکثریت سے رپورٹ کومنظوری دے دی ہے۔ سبھی 11 اپوزیشن ارکان نے بل سے اختلاف کااظہار کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ اس سے نئے تنازعات کھڑے ہوں گے اور وقف املاک خطرے میں پڑ جائیں گی۔ ڈی ایم کے کے ایم پی اے راجہ اور ایم ایم عبداللہ نے اسے ’وقف تباہی بل‘ تک کہہ دےاہے۔ اپوزیشن ارکان نے کمیٹی کے کام کاج کے طریق کار کی خامیوں کی طرف توجہ مبذول کرائی۔ اے راجہ اور عبد اللہ نے کہا کہ استعمال کنندہ کے ذریعہ وقف کاالتزام حضرت محمد کے زمانہ سے ہی موجود ہے۔ جب کہ اے آئی اےم آئی اےم کے اسد الدین اوےسی نے231 صفحات کا اختلافی نوٹ داخل کےاہے ۔ان کا کہناہے کہ 1995کے اےکٹ نے استعمال کنندہ کے ذرےعہ وقف نہےں بناےا۔بلکہ اسے صرف قانونی منظوری دی۔گورو گگوئی نے کہا کہ سرکار کے اپنے رےکارڈ سے پتہ چلتاہے کہ کل 8.72لاکھ درج وقف جائےدادوں مےں سے 4.02لاکھ استعمال کنندہ کے ذرےعہ وقف کی تعرےف کے تحت ہے ۔احتےاط برتتے ہوئے اسدالدن اوےسی نے کہا کہ اس التزام کو اےسے وقت مےں ہٹانا جب ’پھوٹ ڈالنے والے عناصر نے قدےم مسجدوں اور درگاہوں کی مسلم مذہبی عبادت گاہوں کی صورت مےں حالت پر سوال اٹھاتے ہوئے شرارتی دعوے کےے ہےں‘۔ان تنازعات مےں مسلم فرےق کے بچاﺅ کوکمزور کرنے کی کوشش ہے۔ مرکزی وقف کونسل مےں مسلمانوں کو شامل کرنا ،اپوزےشن کے ذرےعہ داخل تقرےباً سبھی اختلافی نوٹس مےں اس التزام کی مذمت کی گئی ہے۔اس سے وقف جائےداوں کے التزام پر مسلمانو ںکا خصوصی کنٹرول کمزور ہوسکتاہے۔ہندو، سےکھ اور دےگر مذہبی انتظامات کوکنٹرول کرنے والے ےکساں قانون کے ساتھ موازنہ اس ترمےم کی تفرےق آمےزنوعےت کو اجاگر کرتاہے۔اس دلےل کی حماےت کرنے کے لئے ’تمل ناڈو، ہندو مذہبی اور خیراتی بندوبست ایکٹ1959‘ اور ’سکھ گوردوارہ ایکٹ 1925 ‘کا حوالہ دیا جا رہا ہے، جو یہ متعےن کرتاہے کہ صرف متعلقہ مذہبی برادریوں کے افراد ہی گورننگ باڈیز کی رکنیت کے اہل ہیں۔ میرواعظ عمر فاروق نے وقف بل پر پارلیمانی پینل سے ملاقات کی، ترمیمات کی مخالفت کی اور مرکز کے ساتھ بامعنی بات چیت کا مطالبہ کیا۔ کانگریس کے تینوں ارکان پارلیمنٹ سید ناصر حسین، عمران مسعود اور محمد جاوید نے ایک مشترکہ اختلافی نوٹ میں کہا کہ ےہ سوال اٹھتا ہے کہ دےگر مذہبی ،بندوبستی قانونوں مےں دوسرے مذاہب کے پیروکاروں کو بھی شامل کےاجانا چاہیے۔ اس طرح کی مثال بھانومتی کاپٹارہ کھول دے گی، جس سے سبھی مذہبی قوانین میں ےکساں تبدےلی کی ضرورت ہوگی، جو عملی نہیں ہے۔ شیو سینا (یو بی ٹی) کے رکن اروند ساونت کے مطابق اس سے افراتفری پھیلے گی۔ ہمیں مسلمانوں کی عبادت گاہوں پر حملہ نہیں کرنا چاہیے۔ کم سے کم پانچ سال تک اسلام کی پیروی کرنے والا شخص ہی وقف کوجائےداد وقف کر سکتا ہے۔ ترنمول کانگریس کے کلیان بنرجی اور ندیم الحق نے اپنے مشترکہ اختلافی نوٹ میں کہا کہ یہ التزام مکمل طور پر غیر مناسب، غیر معقول اور واضح طور پر من مانی ہے۔ ہندوستان کی آئینی اسکیم کے تحت کسی بھی شخص کو اپنے مذہب کی پیروی کرنے کے لئے مجبور نہیں کیا جاسکتاہے۔ کسی بھی مذہب کی پیروی کرنے کے لئے شہرےوں کو مجبور نہیں کیا جا سکتا،تواےسے لوگوں کو اپنی جائیدادبھگوان کو وقف کرنے سے بھی نہیں روکا جا سکتاہے، چاہے وہ ہندو ہوں، مسلمان ہوں یا کسی اور مذہب سے ہوں۔ قانون میں ایسی کوئی دوسری مثال نہیں ہے، جہاں کسی بالغ کی اپنی جائےداد کے ساتھ جس طرح سے بھی مناسب سمجھے ،عمل کرنے کے عمل پرروک لگائی گئی ہو۔ وقف ترمیمی بل 1995 مےںےہ اتحادوں کی حیثیت کے بارے میں کیا بتاتاہے؟ےہ وقف بل ضلع کلکٹر کواس بات کا اختےار دےتاہے کہ اگر کوئی تنازع ہو،کہ کسی سرکاری املاک کو وقف قرار دیا گیا ہو،تو وہ ثالثی کرسکتاہے۔ ترنمول کانگریس کے ممبران پارلیمنٹ نے اپنے اختلافی نوٹ میں کہا کہ اس اےشو کو ’سول تنازع‘ کے طور پر سمجھا جانا چاہئے جس کا تصفیہ عدالتوں میں ہونا چاہئے نہ کہ سرکاری کلکٹر کے ذریعہ جس سے انصاف کی امےد نہےں ہے۔ےہ مذکورہ ترمیم پراپرٹی قوانین کے بنیادی اصولوں پر ضرب لگاتی ہے۔ حکومت کو مجازطرےقے سے سہارا لے کراپنی جائےداد بنانے کا اختےار نہےں ہے۔ جب حکومت تجاوزات کے طور پر کام کرتی ہے، تو مجوزہ ترمیم کے ذریعہ ایسے غیر قانونی حقائق کو جائز نہیں بنایا جا سکتاہے۔ سابق وزیر خارجہ، سینئر وکےل سلمان خورشید نے ’ لےگل اسپےکنگ سمواد ‘میں وقف ایکٹ کے آئینی اور سماجی اثرات پر روشنی ڈالی۔ مختلف مقامات پر سلمان خورشید نے بورڈ میں مسلم خواتین کوشامل کرنے کو ایک ترقی پسند قدم بتاےا۔ انہوں نے وقف بل میں مجوزہ ترامیم اور حکمرانی، جمہوری اقدار اور اسلامی فقہ پر ان کے ممکنہ اثرات کا جائزہ لیا۔ سلمان خورشید کے مطابق اہم نکتہ وقف بورڈ میں مسلم خواتین کو لازمی طور پرشامل کرنے کی ان کی حمایت تھی، جو مجوزہ بل کا ایک اہم التزام ہے۔ اسلامی معاشرے میں خواتین کے تاریخی کرداروں پر غور کرتے ہوئے انہوں نے تبصرہ کیاکہ ’خواتین نے ہمیشہ اہم کردار ادا کیا ہے اور یہ اصلاح ترقی پسند اصولوں کے مطابق ہے۔‘حالانکہ خورشید نے اس بات پر زور دیا کہ غےر جانبداری اوراثرےقےنی بنانے کے لئے اےسی اصلاحات کو شفاف طریقے سے لاگو کیا جانا چاہیے تاکہ انصاف اور اثرکو یقینی بنایا جا سکے۔ خورشید نے بل میں ایک اور التزام کے بارے میں اعتراض کیا جس میں وقف بورڈ کے منتخب ارکان کو سرکار کے ذرےعہ نامزد افراد سے بدلنے کی تجویز ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ جب تک شفاف اور دو طرفہ عمل نہیں اپنایا جاتا، اس طرےقے سے جمہوریت کی جگہ تناشاہی آنے کا خطرہ ہے ۔ اصلاحات سے جمہوریت کو فروغ ملنا چاہیے، اسے ختم نہیں کرنا چاہیے۔ حکمرانی میں جواب دہی اور توازن کی ضرورت ہے۔ مسلم کمیونٹی اس بل پر اپنی رضامندی کی مہر نہیں لگارہی ہے۔پارلیمنٹ مےں وقف ترمیمی بل پرجوائنٹ
پارلےمانی کمیٹی ک رپورٹ پیش کی گئی جس میں مجوزہ ترامیم میں وقف بورڈ کے اختیارات پر کئی پابندیاں لگائی گئی ہیں۔ اب وقف بورڈ کو اپنی جائیداد کے دعویدار کو دستاویزات دکھانے ہوں گے اور ان کے فیصلوں کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل کی جا سکے گی۔ بورڈ میں خواتین اور دیگر مذاہب کے افراد کو بھی شامل کیا جائے گا۔ آخر میں یہ کہا جا سکتا ہے۔وقف (ترمیمی) بل کو لے کر نریندر مودی حکومت، اپوزیشن اور مسلم کمیونٹی کے درمیان کشمکش زےادہ اور ہم آہنگی کا فقدان ہے۔ جہاں ایک طرف سرکاری اراضی اور جائیداد کے غلط استعمال پر قابو پانا ضروری ہے وہیں دوسری طرف مسلم کمیونٹی کو بھی حکومت کی منشا پر بھروسہ کرنے کی ضرورت ہے۔
مضمون نگار سالےسٹر ، انسانی حقوق رضاکار سےاسی تجزےہ نگار ہےں اور دور درشن سے وابستہ رہی ہےں۔
singhnofficial@gmail.com
Sr. Journalist, Author and Solicitor for Human Rights Protection
singhnofficial@gmail.com
Comments
Post a Comment