مضبوط مسلم سماج کیلئے لبرل آئینی تحفظ کی ضرورت
پروفیسر نیلم مہاجن سنگھ
مسلم کمیونٹی نے کسی بھی دوسری کمیونٹی یا طبقے کی طرح پورے ہندوستان میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ مسلمانوں کا ایک خاص طبقہ ہے جسے تعلیمی اور معاشی طورپر بااختیار بنانے کی ضرورت ہے۔ حالانکہ مسلسل یہ شکایت کرنا کہ ہندوستان میں مسلمان محفوظ نہیں ہیں، ہندوستان کے جمہوری ڈھانچے کی بہت بڑی توہین ہے۔ ہندوستان کی آزادی کو اب 77 سال ہو چکے ہیں۔ مسلمان اعلیٰ آئینی عہدوں پر فائز ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ ہمارے عظیم ملک کی تحریک آزادی میں بھی ان کا بڑا رول رہاہے۔ملک کی مقننہ نے خود شریعت ایپلی کیشن ایکٹ 1937 کو منظوری دی ہے۔ ہندوستان کے آئین نے آرٹیکل 24 کے تحت مذہب کوماننے، تبلیغ کرنے اور اس پر عمل کرنے کو بنیادی حق قرار دیا ہے۔
ملک کے صدرجمہوریہ، نائب صدرجمہوریہ، چیف جسٹس، ہائی کورٹس کے جج، سپریم کورٹ آف انڈیا کے سینئر ایڈووکیٹ، پروفیسرز، بیوروکریٹس، سیاست داں، ادیب، اداکار وغیرہ مسلم کمیونٹی سے ہیں۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی یا یہاں تک کہ جے این یو جیسی وقف یونیورسٹیوں نے ممتاز مسلم اسکالرز پیدا کیے ہیں۔ ہندوستان کی جدوجہد آزادی میں رول ادا کرنے والے مسلم لیڈرتھے:خان عبدالغفار خان، مولانا ابوالکلام آزاد، مولانا محمد علی، مولانا شوکت علی، علامہ اقبال، محمد برکت اللہ، بی۔ اماں (علی برادران کی والدہ)، بدرالدین طیب جی، حکیم اجمل خان، محمد علی جناح اور دیگر۔ ڈاکٹر ذاکر حسین، فخر الدین علی احمد اور ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام مسلم ہیں اور وہ ہندوستان کے صدر جمہوریہ رہ چکے ہیں۔ جسٹس محمد ہدایت اللہ ہندوستان کے گیارہویں چیف جسٹس تھے۔ انہوں نے 20 جولائی 1969 سے 24 اگست 1969 اور 6 اکتوبر 1982 سے 31 اکتوبر 1982 تک ہندوستان کے قائم مقام صدر جمہوریہ کے طور پر بھی خدمات انجام دیں۔ جسٹس اے ایم احمدی، ایک مسلم، سپریم کورٹ آف انڈیا کے چیف جسٹس بنے۔ جسٹس فاطمہ بی بی ابراہیم، سلیمان سیٹھ، سید شہاب الدین، محمد اعظم خان، سلطان صلاح الدین اویسی اور ظفریاب جیلانی وغیرہ ہندوستان کے ’ قانونی عقاب‘ (legal eagale) ہیں۔ نائب صدر حامد انصاری ایک سینئر بین الاقوامی سفارت کار رہے ہیں۔ موجودہ مسلم رہنماؤں میں سلمان خورشید، طارق انور، غلام نبی آزاد، فاروق عبداللہ، رکن پارلیمنٹ اسد الدین اویسی، بدرالدین اجمل، حریت رہنما ڈاکٹر عمر فاروق وغیرہ ہیں۔ سینما اور آرٹ کے میدان میں شبانہ اعظمی، عامر خان، موسیقار اے آر۔ رحمان اور صنعت کار عظیم پریم جی ان 22ہندوستانیوں میں شامل ہیں جودنیا کے 500 بااثر مسلمانوں کی فہرست میں شامل ہیں۔ ابوالمحاسن، محمد سجاد، ایم عبدالرحمن سلفی، عبدالخالق سنبھلی، ثناء اللہ پانی پتی، حفظ الرحمن سیوہاروی، شفیق الرحمن ندوی، شاہ عبدالوہاب، غلام علی دہلوی وغیرہ ہندوستان کے عظیم اسلامی اسکالر ہیں۔ بالی ووڈ کی تکڑی عامر، سلمان اور شاہ رخ خان کو مت بھولیے جو بالی ووڈ پر راج کر رہے ہیں۔ یہ کہنا کہ ہندوستان میں مسلمانوں کا مستقبل کیا ہے، دراصل ہمارے آئین کے ذریعہ دی گئی جمہوری اقدار کو کمزور کرنا اور خود ہندوستان کے آئین کی صداقت پر سوال اٹھانا ہے۔ مسلمانوں کو ہمیشہ ’روتے ہوئے بچوں‘ کی طرح نہیں رونا چاہیے۔ انہیں اپنے حقوق کے لیے لڑنا چاہیے، اگر انھیں کوئی حق نہیں دیا جاتاہے! اگر انہیں پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو ہمیشہ قانونی حل ہوتا ہے۔ ہائی کورٹوں اور سپریم کورٹ نے ہمیشہ مسلم کمیونٹی کو تحفظ فراہم کیا ہے۔ پارلیمنٹ رکن مسلم کمیونٹی کے مسائل اٹھاتے ہیں۔ میں آپ کے تبصرے جاننا چاہوں گی کہ آپ کیا محسوس کرتے ہیں؟ کیا ہندوستان میں مسلمان محفوظ ہیں یا نہیں؟ہندوستان میں مسلمانوں کا مستقبل کیا ہے؟ میرے حساب سے ہندوستان میں مسلمانوں کا اتنا ہی مستقبل ہے جتنا کہ ہندوئوں، عیسائیوں، سکھوں اور دیگر کمیونٹیوں کاہے۔ دراصل ان کا مستقبل بہتر ہے کیونکہ وہ بھی ’محفوظ زمرہ‘ میں آتے ہیں۔ آئیے ملک اور سماج کی تقسیم کے ’برطانوی ہینگ اوور‘ سے باہر نکلیں۔ سبھی ہندوستانی کے طور پرایک ساتھ رہیں۔ ہندوستان میں مسلم پرسنل لاء (شریعت) ایپلی کیشن ایکٹ 1937 کے تحت چلایا جاتا ہے۔ آبادی میں اضافے اور مذہبی ڈھانچے میں مسلم معاشرے پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ تقسیم کے بعد چھ دہائیوں میں ہندوستان میں مسلمانوں کی آبادی تین گنا سے زیادہ ہو گئی ہے۔ 1951کی مردم شماری میں 361 ملین (36.1 کروڑ)لوگوں سے 2011 میں 1.2 بلین (120 کروڑ)سے زیادہ ہوگئی۔ اقوام متحدہ کے پاپولیشن ڈویژن کے مطابق 2020 تک ہندوستان میں ہر ماہ تقریباً ایک ملین(10 لاکھ) باشندوں کا اضافہ ہورہاہے جس سے یہ 2030 تک دنیا کے سب سے زیادہ آبادی والے ملک کی صورت میں چین کو پیچھے چھوڑ دے گا۔ پھر متعدد فرقے ہونے کے باوجود اسلام کے ماننے والوں کو اپنے مذہب پر عمل کرنے کی پوری آزادی ہے۔ اس میں مسلم خواتین کا مثبت رول ہے۔ صالحہ عابد حسین، مفیدہ احمد، ممتاز جہاں حیدر، بیگم قدسیہ اعجاز رسول، سلمیٰ بیگم، ارونا آصف علی کا سماجی ترقی میں اہم رول ہے۔ اسد الدین صلاح الدین اویسی،جو آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین (اے آئی ایم آئی ایم) کے صدر ہیں وہ ہندوستانی لوک سبھا میں حیدرآباد حلقے کی نمائندگی کرنے والے پانچ بارکے ممبر پارلیمنٹ ہیں۔ ہندوستان کے مسلمانوں کے لیے سب سے اہم چیلنجوں میں سے ایک تھا ’شاہ بانو معاملہ‘(1985) تھا۔ ’یکساں سول کوڈ‘کی مانگ کو مسلم بنیادپرستوں کی سیدھی مخالفت کا سامنا کرناپڑا، جس سے ہندواور مسلم کمیونٹیوں کے بیچ نظریات کاپولرائزیشن ہوا۔بابری مسجد کا خاتمہ اب کوئی ایشونہیں ہے۔مسلمانوں کو درپیش موجودہ بحران کی بہت سی وجوہات بتائی جا سکتی ہیں۔ ان میں دنیا کے سماجی، اقتصادی اور سیاسی مرکز اور اس کے دائرے، جنگلی سرمایہ داری، سامراج، نوآبادیاتی ماضی، مغربی تسلط، بدعنوان مسلم حکومت کے اشرافیہ وغیرہ کے درمیان اقتدار کے غیر متناسب تعلقات شامل ہیں۔ اسلام دنیا کا دوسرا سب سے بڑا مذہب ہے۔ اس کے 1.21 بلین پیروکار ہیںاوریہ دنیا کی 23 فیصد سے زیادہ آبادی ہے، (مردم شماری 2011)۔ مسلم کمیونٹی نسلی، مذہبی، صنفی، سلامتی اور خواتین کے حقوق جیسے کئی چیلنجوں کا سامناکررہی ہے۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ جو کمیونٹی اتنی مضبوط اور خود انحصار ہو، وہ ہر وقت یہ کہتی رہتی ہے کہ ہندوستان میں مسلمانوں کا کیامستقبل ہے، تو یہ ایک منفی سوچ ہے۔ ہم خود کو تقسیم کرتے رہیں تو یہی مسلم سماج کا مخمصہ بن جائے گا۔ اگر مسلم معاشرے میں بنیاد پرست ہیں تو وہ ہندو مذہب میں بھی ہیں۔ لیکن ہم بات کررہے ہیں ’واسودیو کٹمبکم‘ کی! پھر آئین کے دائرے میں ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی اور دیگر مذاہب کواپنے مذہب اور رسم و رواج کونبھانے کی آزادی ہے۔یہ موضوع اس لیے اہم ہے کہ عوام کو سیاسی، ثقافتی، سماجی اور معاشی طور پر خود کفیل ہوناہے۔ 77 سالوں کے برطانوی استعمار کے بعد ہمارے سماجی ڈھانچے میں ’ہندو مسلم‘ تفریق نہیں ہونی چاہیے۔ بالآخر یہ بھی سچ ہے کہ دنیا کے اسلامی ممالک میں اتنی آزادی نہیں ہے جتنی ہندوستان میں ہے۔ اس کی وجہ ہندوستان کا لبرل آئین ہے، جس میں ہر طبقے کے لوگوں کو ’ہم ہندوستان کے لوگ‘ کہاگیاہے ۔
مضمون نگار سالیسٹر ، انسانی حقوق رضاکار سیاسی تجزیہ نگار ہیں اور دور درشن سے وابستہ رہی ہیں۔
singhnofficial@gmail.com
Sr. Journalist, Author, Doordarshan Personality, Solicitor for Human Rights Protection and Philanthropist
singhnofficial@gmail.com
Comments
Post a Comment