ARTICLE OF PROF NEELAM MAHAJAN SINGH ’مردوں کے حقوق‘ میں قانونی صنفی غیر جانبدارانہ مساوات ہوپروفیسر نیلم مہاجن سنگھ

’مردوں کے حقوق‘ میں قانونی صنفی غیر جانبدارانہ مساوات ہو
پروفیسر نیلم مہاجن سنگھ 
گزشتہ 35 سالوں سے میں خواتین کو بااختیار بنانے کے لیے کام کر رہی ہوں۔ میں نے خواتین کے خلاف جرائم کو روکنے کے لیے مضبوط قوانین اور کارروائی کی وکالت کی ہے، کیونکہ آج بھی ہندوستان ’پدرانہ سماج‘ ہے۔ تمام انسان ایک جیسے ہیں اور ہندوستان کے آئین میں مردوں کو بھی مساوی حقوق دیئے گئے ہیں۔ خواتین کے خلاف مسلسل گھناؤنے جرائم کو دیکھتے ہوئے سخت قوانین کی ضرورت تھی۔ حال ہی میں، سپریم کورٹ آف انڈیا کے چیف جسٹس، جسٹس سنجیو کھنہ نے کہا ہے کہ ایسے قوانین کااستعمال احتیاط اوردانشمندانہ طریقے سے کیا جانا چاہیے۔ بنگلورو میں مہندرا گروپ کے ایک ’اے آئی ٹیکنیشن‘ اتل سبھاش کی جانب سے اپنی بیوی نکیتا سنگھالا کے ذریعہ کئی ازدواجی معاملات میں انتہائی ہراساں کیے جانے کی وجہ سے جان لیوا خودکشی کے تناظر میں سپریم کورٹ میںمفاد عامہ کی ایک عرضی داخل کی گئی ہے۔ اس میں اس بات کو یقینی بنانے کی ہدایات دینے کی بات کہی گئی ہے’خواتین پر گھریلو تشدد کی روک تھام ایکٹ 2005 ‘کے تحت درج معاملوںمیں شوہر اور اس کے کنبہ کے افراد کو ہراساں نہ کیا جائے۔ گھریلو تشدد روک تھام ایکٹ میں دفعہ 12، 22، 26 اہم ہیں۔ دفعہ 498 ۔اے اور سی آر پی سی کے تحت ’جہیز قانون‘ ضابطہ فوجداری کی دیگردفعات پرپھر سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ اتل سبھاش کی بیوی نکیتا سنگھل اور ان کے کنبہ کے افراد پر خودکشی کے لیے اکسانے کا مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ مراٹھا ہلی پولیس اسٹیشن بنگلورومیں درج ایف آئی آر میںان سبھی کو ملزم کے طور پر درج کیا گیا ہے۔
 ضابطہ فوجداری کی دفعہ 125؛ بیویوں بچوں اور والدین کی کفالت سے متعلق ہے۔ الزام طے کرتے وقت مجسٹریٹ تعزیرات ہند(1860 کا 45) کی دفعہ 498۔اے یا اس ایکٹ کے کسی دیگرالتزام یا جہیز روک تھام ایکٹ، 1961 ( 1961کا 28) کے تحت بھی الزام طے کر سکتے ہیں، اگر حقائق میںایسا انکشاف ہوتا ہے۔ بنگلورو سٹی پولیس کی ایک ٹیم اتل سبھاش کی خودکشی کے معاملے میں ملزمین کی تلاش میں اتر پردیش کے جونپور گئی تھی، اس نے پایاکہ اس کی بیوی اور اس کے کنبہ کے افراد فرار تھے۔ ایک ویڈیو وائرل ہوا جس میں اتل سبھاش کی ساس گھر سے بائیک پر بھاگتی ہوئی دکھائی دے رہی تھی۔ اتل نے مبینہ طور پر شہر میں اپنی جان دے دی اور اپنے پیچھے ، 40 صفحات پر مشتمل ’خودکشی نوٹ‘ اور 81 منٹ کاایک ویڈیو ریکارڈ کیا ہوا پیغام چھوڑا۔ اس میں اس نے اپنی بیوی اور اس کے کنبہ کے افراد پر جھوٹے معاملوں میں اسے پھنسانے اور’زیادہ گزارہ بھتہ‘ مانگنے کے علاوہ دیگر الزامات لگائے ہیں۔ اس نے حقیقت میں پورے ملک کو ہلاکر رکھ دیا ہے۔موت کے بعد اتل سبھاش کیلئے انصاف کی مانگ کرنے والے اس کے دوستوںکے ذریعہ ایک مہم شروع کر دی گئی ہے۔
 جولائی 2024 میں جونپور کی فیملی کورٹ نے سبھاش کو اپنے بچے کی پرورش اور دیکھ بھال کیلئے فی ماہ 40000روپے دینے کا حکم دیا تھا۔ سبھاش کے وکیل نے کہا کہ یہ رقم پوری طرح سے بچے کی پرورش اور دیکھ بھال کیلئے تھی۔ اتل سبھا ش کی خودکشی نے سوشل میڈیا اور قانونی برادری میں تیکھی بحث کو جنم دیا ہے جس میں قانونی التزامات خاص طو رسے تعزارت ہند کی دفعہ 498(اے) کے ممکنہ غلط استعمال کے بارے میں سخت تشویش ظاہر کی گئی ہے۔ سبھاش کی موت نے اس متنازع دفعہ کے تحت مردوں اور ان کے کنبہ پرلگنے والے جھوٹے الزامات پر ایک قومی بحث کو پھر سے زندہ کیا ہے۔ ہندوستان کے سپریم کورٹ نے گزارہ بھتہ کی رقم طے کرنے کیلئے 8عوامل درج کئے ہیں۔ اتل سبھاش کی بیوی نے 2019میں اپنے باپ کی موت کا الزام ان پر لگایا تھا۔ بنگلورو کے ٹیکی نے اسے ’بالی ووڈ کی گھٹیا سازش ‘کہا!
فیملی کورٹ میں سبھاش کی نمائندگی کرنے والے وکیل دنیش مشرا نے اس بات پر زور دیا کہ سبھاش نے عدالتی نظام کے اندر اپنے تجربات کی ایک ایماندارانہ تفصیل پیش کی ہے۔ انہوںنے زور دے کر کہا کہ نہ تو عدالت اور نہ ہی جج اس کی زندگی کو ختم کرنے کے تکلیف دہ فیصلے کیلئے ذمہ دار ہیں ۔ سبھاش کے تکلیف دہ خاتمہ پر اپنا غم ظاہر کرتے ہوئے انہوںنے کہا ’ خودکشی ایک مایوس کن انجام ہے‘ اور کسی بھی مسئلے کا حل نہیں ہے۔ سبھاش کے بھائی اسی طرح کے المیہ کو روکنے کیلئے قانونی اصلاحات کی وکالت کررہے ہیں۔ انہوںنے بحران میں پھنسے کنبوںکو نقصاندہ ترکیبوںسے بچنے کیلئے مناسب قانونی رہنمائی حاصل کرنے کی ضرورت پر روشنی ڈالی ہے۔ مختصر یہ کہا جاسکتا ہے کہ خواتین کے خلاف جرائم کو روکنے کیلئے سخت قانون مرد یا شوہر کیلئے ’موت کی کوٹھری‘ میں نہیں بدلنا چاہئے ۔ جبکہ مقامی پولیس کو کنبہ کے مسائل کو حل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے ،جہیز قوانین کو ثبوت کے بغیر درج نہیں کیا جانا چاہئے ۔ حقیقت میں دفعہ 498۔(اے) کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ کیوںکہ اس کی ضرورت ختم ہوچکی ہے۔ دوسری طرف مجرمانہ معاملوںکو ٹرانسفر کرنے کا اختیار ہندوستان کے سپریم کورٹ میں مضمر ہے جو 90فیصد معاملوںمیں مردو ں کی نہیں بلکہ خواتین کی سہولت کو دیکھتا ہے۔ یہ بے حد غیر مناسب ہے ا س کے علاوہ خواتین کی شکایت پر شوہر کے کنبے کے افراد ماں باپ ،بھائی اور بہنوںپر کسی بھی مجرمانہ قانون کے تحت معاملہ درج نہیں کیا جانا چاہئے۔ معاملہ شوہر بیوی او ران کے بچوں کے بیچ رہنے دینا چاہئے۔ اس معاملے میں ملزمہ بیوی نکیتا سنگھل’ اسینچر‘ نام کی عالمی سافٹ ویئر کمپنی میں کام کر رہی ہے۔ اسے اتنے پیسوں کی کیا ضرورت تھی، جب وہ اتل سبھاش سے زیادہ کما رہی تھی۔ عدالتی احکامات کے اس تضاد کی بھی اصلاح کی ضرورت ہے۔ مردوںکو بھی اپنے حقوق کے تئیں بیدار رہنا چاہئے ۔بیشتر ’شادی پورٹل‘ مضحکہ خیز ہیں‘ سوشل میڈیا مردوںکوخواتین سے ملوانے میں قہر برپا کررہا ہے۔ نتائج کی پروا کئے بغیر وہ’لیوان ریلیشن شپ‘ یا شادی کے بندھن میں بندھ جاتے ہیں۔ شادیاں اب سورگ میں نہیں ہوتیں بلکہ اب’ ڈیجیٹل اقتصادی اور استعمالی شادی‘ ہوگئی ہے۔ خاندانی نظام کی ٹوٹ پھوٹ اور والدین کی عزت نہ کرنے کی وجہ سے نئی نسل اپنے فیصلے خود لے رہی ہے اور والدین کو خاموش تماشائی بنا رہی ہے ۔امید ہے اتل سبھاش کی المناک خودکشی حکومت، عدلیہ، وکلا اور شہریوں کی آنکھیں کھولے گی ،اور’شادی میں مردوں کے حقوق‘ کے حوالے سے ان مکروہ خوفناک قوانین میں صنفی غیر جانبداری کی مساوات ہوگی۔
مضمون نگار سالیسٹر ، انسانی حقوق رضاکار سیاسی تجزیہ نگار ہیں اور دور درشن سے وابستہ رہی ہیں۔ 
singhnofficial@gmail.com
PROF. NEELAM MAHAJAN SINGH
SR. JOURNALIST, AUTHOR, SOLICITOR FOR HUMAN RIGHTS PROTECTION AND PHILANTHROPIST 
singhnofficial@gmail.com 

Comments