مدھیہ پردیش کا انتخاب منظرنامہ اور لوک سبھا الیکشن
پرو نیلم مہاجن سنگھ
جن 5صوبوں میں اسمبلی الیکشن ہورہے ہیں ان میں مدھیہ پردیش اکیلا صوبہ ہے جہاں بی جے پی اقتدار میں ہے۔ لہٰذا مقتدر پارٹی اس کو بچانے کے لیے زبردست طریقہ سے انتخابی مہم چلا رہی ہے۔ اس کے علاوہ کانگریس پارٹی، عام آدمی پارٹی ، سماجوادی پارٹی اور بی ایس پی سب ہی انتخابی مہم میں مصروف ہیں اور پوری طاقت لگائے ہوئے ہیں۔ ایسے حالات میں ہر کوئی یہ جاننے کا خواہش مند ہے کہ صوبے میں موجودہ صورت حال کیا ہے۔ وزیراعلیٰ کے عہدے کے چہرے کون کون سے ہیں؟ انتخابی مہم میں بڑے چہرے کون سے ہیں؟انتخابات میں کون کون سے ایشوز ہیں۔ مقابلہ کس کس کے درمیان ہے؟ اس مرتبہ اعداد وشمار 2018کے اعداد وشمار اور سیاسی حالات سے کافی الگ ہیں۔ اس مرتبہ کے الیکشن میں بی جے پی کے سامنے اپنا قلعہ بچانے کا چیلنج ہوگا۔ یہ انتخابات 2024کے عام انتخابات یعنی لوک سبھا متاثر کرسکتے ہیں۔ کانگریس 2020میں اقتدار سے بے دخل ہونے کی کسر پوری کرنا چاہتی ہیں۔ مدھیہ پردیش میں اس وقت انتخابی سرگرمیاں کافی تیز ہیں ۔ تمام سیاسی پارٹیاں ایڑھی چوٹی کا زور لگا رہی ہیں ۔ عام آدمی پارٹی نے بھی 39امیدواروں کے نام کا اعلان کیا ہے۔ سیاسی صورت حال کی بات کریں تو 230ممبران کی اسمبلی میں بی جے پی کے 127،کانگریس کے 96،آزاد 4،بی ایس پی اور سماجودای پارٹی کا ایک ممبراسمبلی تھا۔
2020 میں جیوتی رادتیہ سندھیا کی حمایت کرنے والے ممبران اسمبلی نے تختہ پلٹ دیا تھا۔ اس کے بعد نومبر 2020 میں 28 حلقوں پر ضمنی انتخابات ہوئے۔ اس الیکشن میں سے بی جے پی کو 19سیٹوں پر کامیابی ملی۔ کانگریس نے 9 سیٹوں پر کامیابی حاصل کی تھی۔ اس کے بعد نومبر 2021 میں 3 نشستوں پر ضمنی انتخابات ہوئے۔ ان میں سے 2 سیٹیں بی جے پی اور 1 پر کانگریس نے کامیابی حاصل کی۔ یہ سوال بھی دلچسپ ہے کہ وزیر اعلیٰ کے عہدے کے لیے کون کون سے چہرے ہیں؟ ریاست کے موجودہ وزیر اعلیٰ شیوراج سنگھ (ماموں)ہیں لیکن بی جے پی اس بار وزیر اعظم نریندر مودی کے چہرے پر الیکشن لڑے گی۔ بی جے پی اس الیکشن میں اجتماعی قیادت کے ساتھ الیکشن لڑرہی ہے ۔ حالات اس وقت بدل گئے جب تین مرکزی وزراء سمیت سات لوک سبھا ممبران کو اسمبلی الیکشن لڑنے کے لیے ٹکٹ دیا گیا ہے، جبکہ ریاست کی اہم اپوزیشن پارٹی کانگریس کے 77 سال کے کمل ناتھ کو وزیر اعلیٰ کے چہرے کے طور پر پیش کر ر ہی ہے۔ بی جے پی نے وزیر اعظم نریندر مودی سمیت اپنے بڑے لیڈروں کو انتخابی مہم میں اتارا ہے۔شیوراج سنگھ چوہان بھی انتخابی دورے کر رہے ہیں۔ گوالیار- چمبل خطے کے دو تجربہ کار لیڈر، جیوتی رادتیہ سندھیا اور نریندر سنگھ تومر بھی انتخابی پروگراموں میں حصہ لے رہے ہیں۔ کانگریس کی پرینکا گاندھی مدھیہ پردیش میں کافی سرگرم ہیں۔ کانگریس پارٹی کے سابق صدر راہل گاندھی، ملکہ ارجن کھڑگے، ڈگ وجے سنگھ ’ڈگی راجہ‘، کمل ناتھ وغیرہ بھی الیکشن مہم میں نظر آرہے ہیں۔ اس بار ریاست میں روزگار کا مسئلہ بی جے پی کے لیے پریشانی کا باعث بن رہا ہے۔ گزشتہ انتخابات کے بعد تقریباً تین سال تک بھرتیاں ہوئیں۔ وہ ریزرویشن کے معاملے پر عدالتوں میں زیر سماعت ہیں۔ تقریباً 6 سال بعد پٹواری اور دیگر عہدیدوں کی کئی آسامیوں پر بھرتیاں ہوئی ہیں۔ ریاست کے بے روزگار لوگ امتحانات میں کرپشن اور تقرریوں میں تاخیر کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ کانگریس اپنے پروگراموں میں ان مسائل کو مسلسل اٹھا رہی ہے۔ وہ دعویٰ کر رہی ہیں کہ کانگریس کی حکومت آنے پر مقابلہ جاتی امتحانات کو شفاف بنایا جائے گا اور نوجوانوں کو انصاف ملے گا۔ پارٹیوں کی نظریں قبائل اور خواتین کے ووٹرز پر بھی ہیں۔ بی جے پی قبائلی ووٹروں کو اپنی طرف لا رہی ہے۔ اس سلسلے میں، ریاستی حکومت نے قبائل کے یوم فخر کے موقع پر کچھ اعلانات کیے ہیں اور ’ پیسہ ‘ آرڈینسPESAجاری کیا ہے۔ اس کے ذریعہ گرام سبھاوں کو جنگلاتی علاقوں میں تمام قدرتی وسائل سے متعلق قواعد پر فیصلہ کرنے کا اختیار دے دیا گیا ہے۔ خواتین ووٹروں کو راغب کرنے کے لیے وزیراعلیٰ شیوراج سنگھ نے ’لاڈلی بہن اسکیم ‘ شروع کی۔ اس اسکیم کے تحت ڈھائی لاکھ روپے سے کم سالانہ آمدنی اور پانچ ایکڑ سے کم اراضی کے مالک خواتین کو ہر ماہ ایک ہزار روپے دیے جا رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ’لاڈلی بہن ہاؤسنگ اسکیم‘ اور کم قیمتوں پر ایل پی جی سلنڈر فراہم کرنے کی اسکیمیں بھی شروع کی گئی ہیں۔ ساتھ ہی، کانگریس نے ان اسکیموں کو انتخابی ایشو قرار دیا ہے اور آئندہ انتخابات کے لیے '11نکاتی منشور‘ جاری کیا ہے۔ اس میں خواتین، نوجوانوں، قبائلیوں اور کسانوں سے متعلق مسائل پر بات کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ ’عام آدمی پارٹی‘نے بھی 10 گارنٹوں کا اعلان کیا ہے۔ اس بار سیاسی حالات کافی مختلف ہیں؟
2018 سے مدھیہ پردیش کی سیاست میں بہت کچھ بدل گیا ہے۔ سب سے بڑی تبدیلی جیوتی را دتیہ سندھیا ہیں، جو اس بار بی جے پی کے ساتھ ہیں۔ جب 2018 میں اسمبلی انتخابات ہوئے تو سندھیا کانگریس میں وزیر اعلیٰ کے عہدے کی دوڑ میں تھے۔ اب سندھیا کے ساتھ گوالیار چمبل کے کئی اہم ایم ایل اے اس الیکشن میں بی جے پی کا حصہ ہیں۔ اگر ہم کانگریس کی بات کریں تو اس کا قلعہ بھی مضبوط ہو گیا ہے۔ پچھلے چند مہینوں میں 30 سے زیادہ لیڈر بی جے پی چھوڑ کر کانگریس میں شامل ہو چکے ہیں۔ ان میں بہت سے سندھیا کے حامی ہیں۔
سابق وزیر اعلیٰ کیلاش جوشی کے بیٹے دیپک جوشی، شیو پوری کی کولارس سیٹ سے ایم ایل اے وریندر رگھوونشی، سابق ایم ایل اے بھنور سنگھ شیخاوت، کھڑگون کے سابق ایم پی ملکھان سنگھ سولنکی بھی کانگریس میں شامل ہو گئے ہیں۔ مرکزی وزیر نریندر سنگھ تومر، پرہلاد پٹیل اور فگن سنگھ کلستے اب مدھیہ پردیش اسمبلی انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔ ممبران پارلیمنٹ راکیش سنگھ (سابق ریاستی بی جے پی صدر)، گنیش سنگھ، ریتی پاٹھک اور ادے پرتاپ سنگھ کے علاوہ جنرل سکریٹری کیلاش وجے ورگیہ بھی الیکشن لڑرہے ہیں۔ مانا جا رہا ہے کہ اگر بی جے پی جیت جاتی ہے تو اعلیٰ لیڈروں کے لیے وزیر اعلیٰ کے عہدے کا میدان کھل گیا ہے۔
نریندر سنگھ تومر، ڈومہ کے ایم پی پرہلاد سنگھ پٹیل اور وجے ورگیہ وزیراعلیٰ کے عہدے کے مضبوط دعویدار ہیں۔ شیوراج سنگھ چوہان 20 سال تک وزیر اعلیٰ رہے ہیں۔ پارٹی چوہان کو لے کر بی جے پی الگ حکمت عملی اختیار کررہی ہے اور بی جے پی کو لگتا ہے کہ وہ کام کرتے کرتے تھک گئے ہیں۔ وہیں کمل ناتھ کانگریس کی بھرپور مہم چلا رہے ہیں۔
جن سات ممبران پارلیمنٹ کے ناموں کا اعلان کیا گیا تھا انہیں بی جے پی کے فیصلے سے پہلے ہی آگاہ کر دیا گیا تھا۔ وجے ورگیہ الیکشن لڑ رہے ہیں لیکن مرکزی وزراء کا میدان میں اتارنا بی جے پی کا حیران کن فیصلہ ہے۔ ان معنوں میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ ’بھارت کے مرکز میں واقع مدھیہ پردیش‘ کے انتخابات کے نتائج 2024 کے عام انتخابات کے لیے اہم ہیں78سال کے دگوجے سنگھ کو سادھوی پرگیہ ٹھاکر سے بھوپال میں ہی 364822ووٹوں سے شرمناک شکست، کانگریس کے ورکر سرلا مشرا کی بھیانک آتشزدگی میں پراسرار موت، دگوجے سنگھ کی شریک حیات آشا سنگھ کی کینسر کی بیماری اور ان کی زندگی کے آخری ایام میں امریتا رائے کے ساتھ نجی نوعیت کی تصاویر کا سوشل میڈیا اور نیوز چینل پر ٹیلی کاسٹ اور اس سے قبل سابق وزیراعلیٰ اوما بھارتی کا بیان ’’ ڈگی بھیا بھابھی کی چتا تو ٹھنڈی ہوجانے دیتے اور امریتا رائے کا ٹوئٹ کو ابھی تک مدھیہ پردیش کے عوام بھول نہیں پائی ہیں ۔ اچھا ہوتا کہ دگوجے سنگھ کو کانگریس پارٹی اسمبلی الیکشن سے دور رکھتی، مگر سونیا گاندھی کے چاہتے دگوجے سنگھ نے کمل ناتھ کو اور بعد میں جیوتی رادتیہ سندھیا کو تکلیف دے کر وزیراعلیٰ کے عہدے سے دور کرایا اور اب اپنے بیٹے راج وردھن (آر وی) کو نائب وزیر اعلیٰ بنوانے کو لے کر انہوں نے ان لیڈروں کو بھی ناراض کیا جو برسوں سے کانگریس میں کام کر رہے تھے۔ ڈگ وجے سنگھ کے بیٹے جے وردھن سنگھ نے ’ راگھوگڑھ‘ سے اپنا پرچہ نامزدگی داخل کیا ہے۔ دگوجے سنگھ راگھو گڑھ کے رجوااڑے ہیں۔
دوسری جانب دگ وجے سنگھ کے چھوٹے بھائی 69 سالہ لکشمن سنگھ چاچاؤڈا سے بی جے پی امیدوار پرینکا مینا کے خلاف الیکشن لڑ رہے ہیں۔ مینا کہتی ہیں، ’راجہ صاحب‘ کے پاس شکایات لے جانے سے لوگوں کے مسائل حل نہیں ہوتے۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے سیونی اور کھنڈوا میں انتخابی مہم چلاتے ہوئے کہا، ’’کانگریس پارٹی صرف کانگریسی لیڈروں سے الیکشن لڑ رہی ہے‘‘! دوسری طرف،انڈین ایکسپریس میں 8 نومبر 2023 کو شائع ہونے والے ایک مضمون میں منوج سی جے اور آنند موہن جے نے کمل ناتھ اوردگ وجے سنگھ کو فلم ’شعلے‘ کا ’جے ویرو‘ کہہ کر مدھیہ پردیش کے اسمبلی انتخابات کو دلچسپ کر دیا ہے! تاہم، ’بسنتی‘ کون ہے، یہ ابھی تک معلوم نہیں ہے۔ہر الیکشن میں پارٹیاں کامیابی حاصل کرنے کے لیے ہر حربہ استعمال کرتی ہیں۔ ایم پی اسمبلی کے انتخابات کے نتائج 2024 کے عام انتخابات کی سمت طے کرنے والے ثابت ہوسکتے ہیں۔
(مضمون نگار سینئر صحافی، تجزیہ کار ہیں اور سالیڈیٹری فار ہیومن رائٹس سے وابستہ ہیں)
singhnofficial@gmail.com
Comments
Post a Comment