پارلیمنٹ میں رقم کے بدلے سوال پوچھنے کی کہانی Article of Prof. Neelam Mahajan Singh in Roznama Rashtriya Sahara, 28.10.2023 پروفیسر نیلم مہاجن سنگھچار ’’پی‘‘ بہت ہی خطرناک ہیں یعنی پالیٹکس (سیاست) پریس (صحافت)پاور فل یع

پارلیمنٹ میں رقم کے بدلے سوال پوچھنے کی کہانی 
پروفیسر نیلم مہاجن سنگھ
چار ’’پی‘‘ بہت ہی خطرناک ہیں یعنی پالیٹکس (سیاست) پریس (صحافت)پاور فل یعنی اقتدار اور پروسٹیٹیوٹ یعنی جسم فروش! Strange Bed fellows Politicans areسیاست داں اجنبی ہم بستر ہوتے ہیں۔ یہ اصطلاح ولیم شیکسپیئر کے ڈرامے دی ٹمپسٹ The Tempestسے لی گئی ہے۔ دوسری طرف سیاست داں اپنے دفتروں میں یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم عوام کے خدمت گار ہیں۔ یہ بات طے ہے کہ تمام سیاست داں پیسے جمع کرتے ہے ، سیاست دانوںاور کارپوریٹ ہائوسس کا گٹھ جوڑ پوری طرح قائم ہے۔ ایسو سی ایشن فارم ڈیموکریٹک ریفارمس کی رپورٹ کے مطابق لوک سبھا کے الیکشن کے دوران سیاسی جماعتوں کو کارپوریٹ ڈونیشن کے طور پر 1920کروڑ سے زیادہ رقم ملی۔اس رپورٹ میں پانچ سیاسی جماعتوں کو کارپوریٹ کی طرف چندہ ملا۔ جن پارٹیوں کو چندہ ملا ان میں بتایا گیا ہے کہ بی جے پی ،انڈین نیشنل کانگریس، آل انڈیا ترنمول کانگریس، نیشنلسٹ کانگریس پارٹی اور کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا پارٹیاں ہیں۔ پروڈینٹ الیکٹورل ٹرسٹ بی جے پی اور کانگریس میں سب سے زیادہ شراکت دار ہیں۔ اس کے بعد جن کلیان الیکٹورل ٹرسٹ اور آئی ٹی سی لمیٹڈ تھے ۔ واضح رہے کہ الیکٹورل چندہ ابھی بھی بی جے پی اور کانگریس کی کل آمدنی کا بڑا حصہ ہے۔ حال ہی میں سپریم کورٹ آف انڈیا نے الیکٹورل بونڈ سے متعلق کئی فریقوں کو نوٹس جاری کیا ہے۔ ممتا بنرجی کی پارٹی ترنمول کانگریس کی ممبر پارلیمنٹ مہوا مترا سے متعلق ہر چینل پر دھماکے دار سرخیاں اور خبریں چل رہی ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ ایک سوپ اوپرا ہے۔ ڈاکٹر ششی تھرور نے پچاس سال کی مہومترا کے بارے میں کہا تھا کہ وہ میری بیٹی جیسی ہے۔ ڈاکٹر ششی تھرور نے یہ جواب شمپمین سے لطف اندوز ہونے اور پارٹی کرنے کی وائرل ہونے والی تصویروں کے رد عمل کے طور پر دیا تھا۔ 41سالہ درشن ہیرا نندانی ایک خوبصورت بزنس ٹائیکون ہے اور ہیرا نندانی گروپ کے سی ای او ہیں۔ انہوںنے نیویارک کے روچیسٹر انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنا لوجی سے ایم بی اے کیا ہے۔ انہیں ہیرا نندانی گروپ کے رئیل اسٹیٹ کی تجارت کو عالمی سطح پر لے جانے ڈیٹا سینٹرس کلائوڈ کمپیوٹنگ ، توانائی اور لاجسٹک جیسے سیکٹروں میں ترقی حاصل کرنے کا سہرا جاتا ہے۔ درشن ہندوستان کا شہری ہے اور اس کے پاس ہندوستان کا پاسپور ٹ ہے اور وہ کبھی ممبئی کبھی دبئی میں رہتا ہے۔ اس کے بعد موئترا کا پارنٹر ، جے انند دہاردائی ہے جو ایک نوجوان وکیل ہے جسے موئترا اپنا بوائے فرینڈ کہتی ہے جو بی جے پی کے اترپردیش ممبر پارلیمنٹ جارحانہ مزاج کے ڈاکٹر نشی کانت دوبے نے اس تنازعہ کو لوک سبھا کے اسپیکر کے سامنے رکھا۔ ارے باپ رے؟ بلی تھیلے سے کیسی نکلی؟ اچانک قومی سلامتی ، پارلیمانی کمیٹی برائے اخلاقیات کی خلاف ورزی یا ملک دشمنی کی سازش جیسے مسائل سامنے آجاتے ہیں۔ سچی بات تو یہ ہے کہ وکیل اجے اننت دیہادرائی اور مہومترا کے تعلقات میں تلخی آگئی اور تعلقات زہر آلود ہوگئے۔ پھر یہ پیارہ سا کتا ہینری جو جدا ہوئے ساتھیوں کی محبت ہے۔ درشن ہیرا نندانی جو مہومترا کا اعتماد جیت کر اعالمی سطح کے برانڈ گچھی مسر لویو وٹن کرسچن ڈائر جیسے تحائف کی بارش کررہا تھا۔ مہوا نے ان سب باتو ںکی تردید کی ہے۔ پھر سوال یہ اٹھتا ہے کہ ایک ممبر پارلیمنٹ ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ بینکر اور ایک بے حد جوشیلا مقرر اتنا بے وقوف کیسے ہوسکتا ہے۔  
The promiscuous lifestyle of Dr. Shashi Tharoor, with Mohua   Moitra 
درشن ہیرانندنی کو اپنا ’پارلیمنٹ لاگ ان پاسورڈ‘ دے دے؟ ناراض عاشق نشی کانت دوبے سے ملا۔ یہ اصلی کیچ ہے! ایسا نہیں ہے کہ نشی کانت دوبے نے کسی گھوٹالے کا پردہ فاش کیا ہے۔ درحقیقت دیہادرائی نے موہوا موئترا کے تمام راز دوبے کو دے دئیے تھے۔ اگر موہوا موئترا نے گوتم اڈانی گروپ اور وزیر اعظم نریندر مودی کے خلاف سوالات پوچھنے کے لیے پارلیمنٹ کی ویب سائٹ کا اپنا پاس ورڈ درشن ہیرانندنی کے ساتھ شیئر کیا ہے تو یہ واقعی ایک سنگین معاملہ اور جرم ہے۔ نشی کانت نے مہوا موئترا کے خلاف لوک سبھا اسپیکر اوم برلا کو باضابطہ شکایت کی ہے۔ لوک سبھا کے اسپیکر نے یہ شکایت ایوان کی ’اخلاقی کمیٹی‘کو بھیجی۔ پارلیمانی اخلاقیات کمیٹی اکتوبر 1996 میں نئی دہلی میں منعقدہ پریذائیڈنگ آفیسرز کانفرنس میں منظور کی گئی قرارداد سے شروع ہوئی تھی۔ لوک سبھا میں اخلاقیات کمیٹی 2000 میں تشکیل دی گئی تھی۔ یہ کمیٹی چیئرمین کی طرف سے نامزد ہونے والے زیادہ سے زیادہ پندرہ ارکان پر مشتمل ہوتی ہے۔ راجیہ سبھا میں ایتھکس کمیٹی 1997 میں تشکیل دی گئی تھی۔ مہوا موئترا کے خلاف سوال پوچھنے کے لیے رقم قبول کرنے کے الزامات کا حوالہ دیتے ہوئے ترنمول کانگریس نے ایک سرکاری بیان جاری کیا ہے کہ انکوائری رپورٹ آنے کے بعد مناسب کارروائی کی جائے گی۔ درشن ہیرانندانی نے کہیں بھی یہ نہیں بتایا کہ انہوں نے مہوا کو نقد رقم دی تھی۔الزام ہے کہ مہوا موئترا کو لوک سبھا میں گوتم اڈانی گروپ کے خلاف سوال پوچھنے پر 
مبینہ طور پر مہنگے تحائف اور رقم ملی تھی۔ 
ٹی ایم سی لیڈر کے سابق ’ذاتی دوست‘ جے اننت دیہادرائی نے اپنی ’ایکس‘ موہوا موئترا کے خلاف سنٹرل بیورو آف انویسٹی گیشن میں شکایت درج کرائی ہے۔ نشی کانت دوبے اور دہدرائی دونوں 26 اکتوبر کو اخلاقیات کمیٹی کے سامنے پیش ہوئے اور اپنے بیانات ریکارڈ کرائے۔ اس کے جواب میں مہوا موئترا نے ان دونوں کے خلاف دہلی ہائی کورٹ میں ہتک عزت کا مقدمہ دائر کیا ہے۔ ایتھکس کمیٹی کے چیئرمین ونود سونکر نے یقین دلایا ہے کہ ’ سوال پوچھنے کے بدلے رقم‘ گھوٹالے سے متعلق ہر چیز کی چھان بین کے بعد ہی کمیٹی اپنے نتیجے پر پہنچے گی۔ انہوں نے کہا کہ نشی کانت دوبے سے ثبوت پیش کرنے کو کہا گیا ہے۔ کیا وہ ثبوت دیں گے؟ کیش کے لین دین کو ثابت نہیں کیا جا سکتا۔ ٹی ایم سی کے راجیہ سبھا ایم پی ڈیرک او۔ برائن نے کہا، ’’متعلقہ رکن کو پارٹی قیادت کی طرف سے ان پر لگائے گئے الزامات کے حوالے سے اپنی پوزیشن واضح کرنے کا مشورہ دیا گیا ہے۔ وہ پہلے ہی اپنا موقف دے چکی ہیں۔’’دوبے نے کہا کہ ہندوستانی ارب پتی تاجر نرنجن ہیرانندنی کے بیٹے درشن ہیرانندنی نے پارلیمنٹ میں گوتم اڈانی گروپ سے متعلق خاص نوعیت کے سوالات اٹھانے کے بدلے موہوا موئترا کو رشوت دی ہے۔ نشی کانت دوبے نے لوک سبھا اسپیکر اوم برلا سے موہوا موئترا کو فوری طور پر لوک سبھا سے معطل کرنے کی اپیل کی ہے۔ دوبے نے لکھا، ’’نقدی اور تحائف کے بدلے، پارلیمنٹ میں سوال پوچھنے کے لیے ان کے اور تاجر درشن ہیرانندنی کے درمیان رشوت کا لین دین ہوا۔‘ ٹویٹر پر حملے حیرت انگیز ہیں! دوبے مہوا کو ’دبئی دیدی‘ کہہ رہے ہیں جبکہ مہوا اسے ’جھارکھنڈ کا پِٹ بُل‘ کہہ رہی ہیں۔ درشن ہیرانندنی نے اعتراف کیا ہے، ’’میں نے گوتم اڈانی گروپ کے خلاف سوالات اٹھانے کے لیے ٹی ایم سی ایم پی موہوا موئترا کا لاگ ان کوڈ ورڈ استعمال کیا ہے۔‘‘ لیکن اس کا ’او ٹی پی‘ صرف مہوا کو آتا تھا۔ ہیرانندنی نے دعویٰ کیا کہ موئترا نے ان سے اور تحائف کا مطالبہ کیا۔ درشن ہیرانندنی نے خود بخود اوم برلا کو اسٹامپ پیپر پر ایک نوٹری شدہ حلف نامہ بھیجا ہے۔ درشن ہیرانندانی مجرمانہ بدنظمی کا اتنا ہی قصوروار ہے، اگر وہ حقیقت میں موئترا کے لاگ ان پاس ورڈ کے ذریعے سوال پوسٹ کر رہا تھا۔ یہ اعلیٰ درجے کی کارپوریٹ جنگیں ہیں۔ تمام کاروباری گروپ پارلیمنٹ میں سوالات اٹھانے کے لیے اراکین پارلیمنٹ کا 
استعمال کرتے ہیں۔ ہیما مالنی نے پارلیمنٹ میں ’کینٹ آر او پیوریفائر‘ کا مسئلہ اٹھایا تھا، جس کے لیے وہ ماڈلنگ کرتی تھیں! اس کے لیے انہوں نے معافی مانگی، لیکن لوک سبھا کے اسپیکر نے بھی ان کی سرزنش کی۔ درشن ہیرانندانی اپنے آپ کو بچانے کی کوشش کر رہے ہیں، کیونکہ وہ اپنی ہی بے راہ روی کے جال میں پھنس چکے ہیں۔ عوام کو معلوم ہونا چاہیے کہ ان کے نمائندوں کی الماری میں بہت سے کنکال ہیں۔ یہ ایک شرمناک باب ہے اور ایک قسط وار تفریحی پروگرام بھی ہے، کیونکہ اس میں ایک محبت کی کہانی ہے، ایک ٹوٹا ہوا دل ہے، ایک تاجر ہے، ایک ایسے سیاستداں کے لیے کشش ہے جس نے اپنا لاگ ان پاس ورڈ بھی سپرد کر دیا ہے۔ اپوزیشن اتحاد نے (I.N.D.I.A.) حکومت پر حملہ کرنے کا موقع گنوا دیا ہے۔ ممتا بنرجی کے سادہ، طرز زندگی کے نعرے ’ماں ،مٹی، انسان ‘کے نعرے کو ’کیش فار کوئری‘ گھوٹالہ کی وجہ سے دھچکا لگا ہے۔ ایک رکن پارلیمنٹ کی حیثیت سے، موہوا موئترا کو ان سنگین الزامات پر اپنا موقف پیش کرنے کا مکمل موقع دیا جانا چاہیے۔ ثبوت اہم ہوں گے۔ ویسے ’ہنری‘ نے اپنا بیان نہیں دیا! یہ واقعی ایک مکروہ کہانی ہے۔ سچ کو فتحیاب ہونا ہی چاہیے۔ 
(مضمون نگار سینئر صحافی، تجزیہ کار ہیں اور سالیڈیٹری فار ہیومن رائٹس سے وابستہ ہیں)
.comsinghnofficial@gmail
Prof. Neelam Mahajan Singh singhnofficial@gmail.com 

Comments