370-سپریم کورٹ کا فیصلہ جموں وکشمیر کیلئے فیصلہ کن

دفعہ 370-سپریم کورٹ کا فیصلہ جموں وکشمیر کیلئے فیصلہ کن 
پروفیسر نیلم مہاجن سنگھ
اے میرے کشمیر! میں کشمیر کے معاملے پر حساس اور جذباتی ہوں۔ میں نے سینٹ اسٹیفن کالج دہلی سے ایم اے ہسٹری، ایم فل اور ایل ایل بی تک تعلیم حاصل کی۔ میں جموں و کشمیر سے ہمیشہ رابطے میں رہتی ہوں۔ نہرو ٹنل کے بعد وادی کشمیر کے علاقوں میں الگ ثقافت اور جغرافیائی سیاسی مسائل ہیں۔ وادی کا 90 فیصد حصہ مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ مرکزی حکومت آرٹیکل 370 کو ہٹانے کے بعد ایک نئی ونڈو متعارف کروانا چاہتی ہے۔ میں پہلے ہی سپریم کورٹ کے فیصلے کا اندازہ لگا سکتی ہوں! جموں و کشمیر میں دفعہ 370 کو بحال نہیں کیا جائے گا۔ جموں و کشمیر کو مرکز کے زیر انتظام ریاست کا درجہ برقرار رہے گا۔ سپریم کورٹ نریندر مودی حکومت کے اس فیصلے کو درست اور آئینی قرار دے گی۔ سپریم کورٹ کی آئینی بنچ میں چیف جسٹس، جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ، جسٹس سنجے کرشن کول، جسٹس سنجیو کھنہ، جسٹس بی آر گوئی اور جسٹس سوریہ کانت شامل ہیں۔ یہ سب اعلیٰ درجہ کے آئینی اسکالر ہیں۔ کپل سبل کے دلائل اور چیف جسٹس جسٹس دھننجے یشونت چندرچوڑ کے تیز وتند سوالات بہت اہم ہیں۔ سپریم کورٹ میں آرٹیکل 370 پر سماعت کے اہم دلائل درج ذیل ہیں۔ جموں و کشمیر کو خصوصی درجہ دینے والی شق کو مرکز نے 2019 میں ختم کر دیا تھا۔ سپریم کورٹ کی آئینی بنچ نے عرضی گزاروں سے پوچھا کہ ’’یہ شق عارضی تھی، پھر اسے مستقل کیسے کیا جائے گا‘‘۔ سی جے آئی ڈی وائی چندرچوڑ کی سربراہی والی بنچ کی توجہ اس سوال پر مرکوز ہے۔ سپریم کورٹ نے نیشنل کانفرنس کے محمد اکبر لون کے وکیل کپل سبل سے کئی سوالات پوچھے۔ اپنے دلائل میں، سبل نے 1846 کے معاہدہ لاہور کا حوالہ دے کر مسئلہ کشمیر کے تاریخی پہلو کی وضاحت کرنے کی کوشش کی۔ سبل کا کہنا ہے کہ ’ریاست خود مختار رہنا چاہتی تھی لیکن اکتوبر 1947 میں پاکستان کے حمایت یافتہ فوجی حملے نے کشمیر کے مہاراجہ ہری سنگھ کو ‘الحاق کے دستاویز پر دستخط کرنے پر مجبور کیا۔ ایک سیاسی کارروائی کے ذریعے آرٹیکل 370 کو کھڑکی سے باہر پھینک دیا گیا۔ پارلیمنٹ نے خود آئین ساز اسمبلی کا کردار ادا کیا اور آرٹیکل 370 کو یہ کہتے ہوئے منسوخ کر دیا کہ وہ جموں و کشمیر کے لوگوں کی مرضی کا استعمال کر رہی ہے۔ کیا ایسی طاقت استعمال کی جا سکتی ہے؟' اس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ جموں و کشمیر ہندوستان کا اٹوٹ انگ ہے۔ سبل کے دلائل منھ پر گر رہے تھے کیونکہ ان درخواست گزاروں میں سے زیادہ تر کا تعلق فاروق عبداللہ اور محبوبہ مفتی خاندان سے ہے۔ سبل صرف خاندان پرستی کو فروغ دے رہے ہیں۔ دفعہ 370 اور آئین ساز اسمبلی کے پیچ پر پھنس گیا اور سبل بوکھلا گئے ہیں۔ کپل سبل نے کہا کہ آرٹیکل دفعہ 370 کو منسوخ کرنا ایک ’سیاسی فیصلہ‘تھا۔ اگر آپ آرٹیکل 370 کو ختم کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو آئین ساز اسمبلی سے سفارش لینی ہوگی۔ اس پر سی جے آئی ڈی وائی چندر چوڑ نے کہا کہ ’جب تک یہ موجود تھی‘؟ سبل نے کہا کہ آئین ساز اسمبلی نے جموں و کشمیر کے لیے آئین تیار کرنے کے بعد اپنی مدت کار پوری کر لی تھی۔
سی جے آئی نے سبل سے پوچھا، کس معاملہ میں، آرٹیکل 370، جو کہ ایک عارضی شق ہے، اس حقیقت کی بنیاد ایک مستقل شق کی شکل اختیار کرتی ہے کہ اب وہاں کوئی آئین ساز اسمبلی نہیں ہے؟ سبل نے کہا، ’پارلیمنٹ کو ایسی طاقت کہاں سے اور کن التزامات کے تحت ملتی ہے؟ یہ ایک منفرد ڈھانچہ تھا جسے 5 اگست 2019 کو تبدیل کیا گیا اور آرٹیکل 370 کو کھڑکی سے باہر پھینک دیا گیا۔ ‘ آئین ساز اسمبلی نہیں رہی تو یہ شق مستقل ہو گئی؟ جب آئین ساز اسمبلی کی میعاد (1957 میں) ختم ہوگی ، پھر کیا ہوا؟ آپ کے مطابق 1957 کے بعد آرٹیکل 370 میں ترمیم ہو ہی نہیں سکتی۔ اگر آپ کی منطق درست ہے تو آرٹیکل 370، جو ایک عارضی شق ہے، مستقل شکل اختیار کر لیتا ہے کیونکہ 1957 کے بعد سے کوئی آئین ساز اسمبلی نہیں رہ گئی۔ سی جے آئی ڈی وائی چندر چوڑ۔ آئین ساز اسمبلی کی مدت کار ختم، اب کیا ہوگئی؟ ججوں نے سبل سے پوچھا، 'جب آئین ساز اسمبلی کی میعاد ختم ہوتی ہے تو کیا ہوتا ہے؟ کسی بھی آئین ساز اسمبلی کی مدت کار غیر معینہ نہیں ہو سکتی۔ آرٹیکل 370 کی شق (3) کاالتزام ریاست کی آئین ساز اسمبلی کی سفارش کا حوالہ دیتی ہے اور یہ کہتی ہے کہ صدر کے نوٹیفکیشن جاری کرنے سے پہلے آئین ساز اسمبلی کی سفارش ضروری ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ جب آئین ساز اسمبلی کا وجود ہی ختم ہو جائے گا تو کیا ہو گا؟ سبل نے جواب دیا کہ یہ بالکل ان کا نقطہ ہے اور ان کا پورا معاملہ یہ ہے کہ صدر آئین ساز اسمبلی کی سفارش کے بغیر آرٹیکل 370 کو منسوخ کرنے کا نوٹیفکیشن جاری نہیں کرسکتے ہیں۔ جسٹس بی آر گوئی نے مداخلت کرتے ہوئے سبل سے پوچھا کہ کیا یہ دلیل دی جارہی ہے کہ 1957 کے بعد آرٹیکل 370 کے بارے میں کچھ نہیں کیا جاسکتا تھا؟ اب پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کی چیئرپرسن محبوبہ مفتی نے کہا ہے کہ ملک میں سپریم کورٹ ہی واحد ادارہ ہے جو اس بات کو یقینی بنا سکتا ہے کہ ہندوستان میں اس کے آئین کے مطابق حکومت ہو۔ محبوبہ نے ایک بار پھر فتنہ انگیز ریمارکس دیے ہیں، ’’جموں و کشمیر نے مسلم اکثریتی ریاست ہونے کے باوجود، مذہب کی بنیاد پر دو قومی نظریہ کو مسترد کر کے ہندوستان میں شمولیت اختیار کی، ہمیں آئین کے تحت یقین دہانی کرائی گئی، یہ یقین دہانی چین، پاکستان یا کسی پڑوسی ملک کے ذریعہ نہیں کرائی گئی تھی۔ جموں و کشمیر میں ایک مضبوط بنیادی ڈھانچے کو آگے بڑھانے کے ایک حصے کے طور پر پروجیکٹوں کے سلسلے کا افتتاح کرتے ہوئے، وزیر اعظم نریندر مودی نے وادی کشمیر کے نوجوانوں کو یقین دلایا ہے کہ وہ ’’ماضی میں اپنے والدین اور دادا مشکلات کا سامنا کبھی نہیں کریں گے ۔ کشمیر کے معاملات پر ایک مبصر اور ماہر کے طور پرمجھے لازمی یہ بتانا چاہیے کہ کشمیر میں انتہا پسند، سرحد پار دہشت گرد اور دراندازی جیسے اہم مسائل سے ہیں جن سے نمٹنا ہوگا۔ ’’چلو وادی کشمیر کے زخموں پر مرہم رکھیں‘‘! اس کے علاوہ ’جمہوریت، انسانیت اور کشمیریت‘ کے تصور کو عملی جامہ پہنانا چاہیے۔ ’’گر فردوس بر روئے زمین است، ہمیں است و، ہمیں است و، ہمیں است‘‘ (’’اگر زمین پر جنت ہے تو یہیں ہے، یہیں ہے، یہیں ہے‘‘)، امیر خسرو نے یہ تب کہا جب انہوںنے کشمیر کا  17ویں صدی میں دورہ کیا ۔
(Oh: my Kashmir, I Miss you Always)
 میں نے سینکڑوں آرٹیکلز، ٹیلی ویژن شوز، نیوز رپورٹس، سیاسی رہنماؤں، بیوروکریٹس، انٹیلی جنس بیورو،وزارت داخلہ کے حکام، بہت سے معزز گورنرز، سربراہان کے ساتھ ذاتی گفتگو شائع کی ہے۔ وادی کشمیر کے نہ ختم ہونے والے مسائل کا حل تلاش کرنے کے لیے! ’چارٹر آف الحاق‘کی تفصیلات دینے کا کوئی فائدہ نہیں، جس میں مہاراجہ ہری سنگھ نے جموں و کشمیرکو جمہوریہ ہند کے حوالے کیا تھا۔ لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا کے پاس انتظامیہ اور وادی کے لیے ’دل جیتو‘ پیکج پر عمل درآمد سپریم کورٹ کا فیصلہ اہم کردار ادا کرے گا۔ حضرت بل، عیدگاہ، شنکراچاریہ، سکھی چھٹی پادشاہی اور ماتا ویشنو دیوی کی وادی میں امن اور خوشحالی وقت کی ضرورت ہے۔ ہمیں جموں و کشمیر میں امن کا ایک موقع دینا ہوگا۔یہ سب ہی کے گہرے زخموں پر مرہم لگانے کا وقت ہے۔ سپریم کورٹ کا فیصلہ مرکز کے زیر انتظام جموں و کشمیر کے لیے فیصلہ کن ہوگا۔ اے میرے کشمیر!
(مضمون نگار سینئر صحافی، تجزیہ کار ہیں اور سالیڈیٹری فار ہیومن رائٹس سے وابستہ ہیں)
singhnofficial@gmail.com

Comments