Prof. Neelam Mahajan Singh, Sr. Journalist, Doordarshan Personality, Author, Advocate For Human Rights Protection & Philanthropist مدھیہ پردیش کی انسانیت سوز واردات پروفیسر نیلم مہاجن سنگھآئین نے اور سبھی سیاسی

Prof. Neelam Mahajan Singh, Sr. Journalist, Doordarshan Personality, Author, Advocate For Human Rights Protection & Philanthropist 
مدھیہ پردیش کی انسانیت سوز واردات 
پروفیسر نیلم مہاجن سنگھ
آئین نے اور سبھی سیاسی جماعتوں نے قبائلیوں اور پسماندہ طبقات کو خاص اہمیت دی ہے تاکہ انہیں ان کو مساوی حقوق حاصل ہو۔ مدھیہ پردیش میں قبائیلوں اور پسماندہ ذاتوں کی تعداد 1,53,16784جو ریاست کی کل تعداد کی 21.1فیصد ہے اور ہندوستان میں قبائیلوں کی تعداد کا تناسب 13.57فیصد ہے۔ بھیل اور گوڑ کی آبادی سب سے زیاد ہے۔ مدھیہ پردیش میں اس ہفتہ بی جے پی کے ورکر پرویش شکلا نے جو کیا وہ انسانیت کو شرمسار کرنے والا ہے۔ ہرکسی نے اس واقعہ پر اپنے خیالات رکھے اور اس گھنائونی حرکت کو غیر انسانی قرار دیا، لیکن معاملہ صرف اتنے پر ہی نہیں تھما بلکہ اب تو لیڈر قبائلی دشمت راوت کو گھر پر بلا کر ان کے پیر دھوتے ہوئے نظرآرہے ہیں۔ وزیراعلیٰ شیوراج سنگھ چوہان نے متاثرہ کے پیر دھوئے اور ان کو شال دی یوں کہیں کہ انسان کو انسانی کہنے پر ہی شرم آنے لگی ہے۔ معاملہ کچھ یوں تھا کہ بی جے پی کے ورکر اور سدھی قبائلی سماج کے دشمت راوت کے سر پر پیشاب کیا۔ جس کے ویڈیو خوب وائرل ہوا۔ وہی ملزم کو گرفتار کرکے اس پر این ایس اے لگا کر اس کا گھر بلڈوزر سے گرادیا گیا ہے۔  سوال کسی فرد کے معاشرے یا مذہب کا نہیں بلکہ انسانیت کا ہے۔ انسانیت سے سب سے بڑا مذہب ہے۔ ہم ایک ایسے سماج میں رہتے ہیں اور ہماری ثقافت میں واسدھاھیو کٹمبکم کا تصور ہے، پھر ایک شخص دوسرے پر پیشاب کرتا ہے  اس سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہم کس اخلاقی زوال کی طرف جا رہے ہیں؟ کیا پرویش شکلا نے یہ سبق بی جے پی سے سیکھا ہے؟ کیا اسے یہی سکھایا گیا ہے؟وزیراعلیٰ مدھیہ پردیش شیوراج سنگھ چوہان نے دشمت راوت کو 5 لاکھ روپے اور گھر بنانے کے لیے 1.5 لاکھ روپے کی مالی مدد فراہم کی ہے۔ شیوراج سنگھ چوہان نے دشمت راوت کو وزیر اعلیٰ کی رہائش گاہ پر بلایا۔ وزیراعلیٰ نے متاثرہ کے پاؤں دھوئے، اسے ہار پہنائے، اسے شال اور گلدستہ دیا۔ یہی نہیں شیوراج سنگھ نے دشمت کو مٹھائی کھلائی اور ناشتہ بھی کروایا۔ جب شیوراج سنگھ متاثرہ کے پاؤں دھو رہے تھے تو وہ جذباتی نظر آئے اور وہ رو رہے تھے۔ان کے چہرے کے تاثرات سے ظاہر ہورہا تھا کہ وہ اس واقعے سے دل شکستہ اور صدمہ میں ہیں۔ وزیراعلیٰ نے نہ صرف متاثرہ کے پاؤں دھوئے بلکہ وہ پانی اس کے سر پر بھی لگایا۔ اس موقع پر وزیراعلیٰ نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ "دشمت بھائی کے ساتھ ناانصافی ہوئی،میں اس سے افسردہ ہوں اسی لیے میں نے دشمت کو اپنے گھر بلایا تو میرا دماغ درد سے بھر گیا یہ بہت تکلیف دہ ایک انتہائی غیر انسانی واقعہ ہمارے بھائی کے ساتھ پیش آیا۔ اتنا ہی نہیں معاملہ سامنے آتے ہی وزیراعلیٰ نے کہا تھا کہ 'ملزموں کے خلاف سخت ترین کارروائی کی جائے گی اور اسے بخشا نہیں جائے گا'۔ سی ایم شیوراج سنگھ کے اس قدم کو بی جے پی نے خوب سراہا لیکن اپوزیشن نے وزیر اعلیٰ سے سوال کرنا شروع کر دیا کہ صوبے میں قبائلیوں کی کیا حالت ہے؟ کانگریس نے اس سلسلے میں ایک پانچ رکنی ٹیم تشکیل دی ہے جس میں سابق ایم پی مانک سنگھ، ریاستی نائب صدر لال چند گپتا، سابق ایم ایل اے سرسوتی سنگھ، ضلع کانگریس کمیٹی کے رکن گیانیندر پرتاپ سنگھ اور سینئر لیڈر بسنتی کول شامل ہیں۔ شیوراج سنگھ کے متاثرہ دشمت راوت کو عزت دینے کے بعد کانگریس ضلع صدر گیان سنگھ متاثرہ کے گھر پہنچے۔ جہاں انہوں نے سب سے پہلے گنگا کا پانی چھڑک کر دشمت روات کو پاک کیا۔ پھر گنگا کے پانی سے منہ دھویا اور چہرہ اور سر بھی پاک کیا۔ کیا اس شرمناک واقعہ کے منظر عام پر آنے والے انتخابات میں بی جے پی کے لیے نقصاندہ ثابت ہوگا؟ کیا اب بی جے پی کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے؟ اس واقعہ سے جہاں لوگ ناراض ہیں وہیں دوسری طرف یہ معاملہ بی جے پی کے لیے پریشانی کا باعث بن گیا ہے۔ ایم پی میں قبائلی سماج کی آبادی 21 فیصد ہے اور قانون ساز اسمبلی میں 47 مخصوص نشستیں قبائلیوں کے لیے مختص ہیں۔ ایسے حالات میں اگر اعداد و شمار کی تبدیلی کو سمجھیں تو یہ نظر آتا ہے کہ بی جے پی جو ووٹ بینک میں گڑبڑ کرنے کی تیاری میں تھی، اب اس حادثہ سے ٹوٹی نظرآتی ہے۔ اگر ہم کانگریس کی بات کریں تو وہ اس معاملے کو سستے میں چھوڑنے کے موڈ میں نہیں ہے۔ یہ اس لیے بھی ہے کہ وہ جانتی ہیں کہ ریاست میں 47 نشستیں قبائل کے لیے مختص ہیں اور فی الحال ان کے پاس قبائل کے لیے مختص 30 اور بی جے پی کے پاس 16 نشستیں ہیں۔ ایسے میں کانگریس ان ایشوز کے ذریعے ان سیٹوں پر کامیابی درج کرانا چاہتی ہے۔ وہیں شیو پوری ضلع سے ایک معاملہ سامنے آیا ہے جہاں دو نوجوانوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک ہوا ہے۔
الزام ہے کہ کچھ دن پہلے دو دلت نوجوانوں کو پہلے چپلوں کے ہار پہنائے گئے اور پھر پاخانہ کھلایا گیا اور ایک جلوس بھی نکالا گیا۔ اس معاملے میں پولیس نے 7 افراد کو گرفتار کیا ہے اور ایک ملزم کے گھر پر بلڈوزر چلا دیا ہے۔ ایسے میں سوال یہ پیدا نہیں ہوتا کہ ریاست کے سربراہ یا دیگر رہنما انتخابات کے دوران اس قبائلی کے پاؤں کیوں دھو رہے ہیں؟ بلکہ اسے درحقیقت ایک علامت کے بطور سمجھنا ہوگا اگر حکومت ایسے لوگوں کی عزت کرتی ہے اور احترام کرتی ہے تو اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سرکار سب سے پیچھے بیٹھے شخص کا خیال رکھتی ہے۔
 آخر ایسا کیا ہو گیا ہے کہ معاشرے کی اخلاقی اور کردار کی تنزلی اتنی پستی کی طرف ہو گئی ہے۔ ہمارے گھر والوں نے جو
 اچھی تربیت اور اقدار دیے ہیں تو اس طرح کے واقعات کیوں ہورہے ہیں اور ہماری روایات کیا ہوگا۔ کیا وہ ایسی پستی میں پہنچ گئے ہیں؟ سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ جو جماعت ثقافت، مذہب، خاندانی اور اخلاقی اقدار کی دعوت دیتی ہے، جس کا سیاسی اور سماجی ماحول آر ایس ایس سے جڑا ہوا ہے پھر وہ کون سے اخلاقیات غائب ہیں کہ ایک شخص اپنا فضلہ اور پاخانہ دوسرے شخص پر پھینک رہا ہے۔ آخر وہ اس زوال کو کیسے پہنچا یا اس کی سوچ اس ناقص سطح تک کیسے پہنچی؟ لیکن سوال یہ ہے کہ آئندہ ایسی حرکتیں نہیں ہونی چاہئیں، اس حوالے سے کیا صورتحال ہے؟ اس واقعے کی ویڈیو سامنے آگئی، لیکن اگر ویڈیو نہ آئی تو اس کے پیچھے کا کالا سچ، کیا ہم نہیں دیکھ پاتے؟
ہندوستانی معاشرہ اور ثقافت ہمیشہ ان لوگوں کی مدد اوران کا خیال رکھنے پر زور دیتا ہے جو کمزور ہیں۔ دوسرا اور زیادہ مہلک اسکینڈل انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ جج ت کیاخدا بھی پرویش شکلا کو معاف نہیں کرے گا! لعنت ہے ایسے سماج پر جس میں انسان میں خامیاں آگئی ہوں! میں اس
 زوال سے بہت پریشان ہوں۔ (مضمون نگار سینئر صحافی، تجزیہ کار ہیں اور سالیڈیٹری فار ہیومن رائٹس سے وابستہ ہیں)
singhnofficial@gmail.com

Comments