نوٹ بندی:ڈیجیٹل کیش
سوسائٹی کی طرف پیش قدمی
پروفیسر نیلم مہاجن سنگھ
جب وزیراعظم نریندر مودی نے 8نومبر 2016کی رات کو 500 اور 1000روپے کے نوٹ کو غیر قانونی قرار دے دیا تھا تو نوٹوں کو ندی نالوں میں بہتے دیکھا گیا تھا، لمبی قطاروں میں کھڑے کھاتہ داروں کے مناظر ابھی بھی ہمارے دماغ میں تازہ ہیں۔ نوٹ بندی کے تقریباً چھ سال بعد ریزرو بینک آف انڈیا نے کیوں بند کردیے ہیں، دو ہزار روپے کے نوٹ کیا ہے؟ اس فیصلہ کی وجہ اچانک 2000روپے کے نوٹ کو سرکولیشن سے باہر کا اعلان کیا گیا؟ حالانکہ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ 2000ہزار روپے کے نوٹ کی قانونی حیثیت ختم ہوگئی ہے۔ فی الحال 30ستمبر 2023تک 2000روپے کے نوٹ چلتے رہیں گے، شکتی کانت داس گورنر ریزروبینک آف انڈیا کے اس قدم سے ایک بار پھر 2016کی نوٹ بندی کی یاد تازہ ہوگئی۔ دی ہائی ڈیموٹائزیشن آف بینک نوٹس ایکٹ 1978کے تحت نوٹوں کو غیر قانونی قرار دیا جاسکتا ہے۔
آر بی آئی نے نومبر 2016میں دو ہزار روپے کا نوٹ جاری کیاتھا۔ سرکار نے یہ فیصلہ اس لیے کیا تھا کہ اس وقت بازار میں موجود پانچ سو اور ہزار روپے کی کرنسی نوٹ بندی کے تحت ہٹائے گئے تھے ۔ آر بی آئی کے مطابق دو ہزار روپے کے 89فیصد نوٹ مارچ 2017سے پہلے ہی جاری ہوگئے تھے۔ سرکار کا کہنا ہے کہ یہ نوٹ چار پانچ سال تک کے برقرار رہنے کی حد کو عبور کرچکے ہیں یہ ایک بڑی وجہ ہے کہ جس سے دو ہزار روپے کے نوٹ کو سرکار نے بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
31 مارچ 2018 تک، مارکیٹ میں 6.73 لاکھ کروڑ روپے کے نوٹ چلن میں تھے۔ یعنی مارکیٹ میں موجود کل نوٹوں کا حصہ پہلے 37.3 فیصد تھا۔ 31 مارچ 2023 تک یہ تعداد گھٹ کر 3.62 لاکھ کروڑ روپے پر آ گئی تھی۔ یعنی ان نوٹوں میں سے دو ہزار روپے کے نوٹوں کا فیصد محض 10.8 رہ گیا ہے۔ مارکیٹ میں آنے کے بعد نوٹوں کے چلن میں لانے کا مقصد بھی پورا ہو گیا ہے۔
2018-2019 سے حکومت نے 2 ہزار روپے کے نوٹوں کی چھپائی روک دی ہے۔ آر بی آئی کا کہنا ہے کہ 2000 کے نوٹ عام طور پر زیادہ مروج نہیں ہیں۔ آر بی آئی کی کلین نوٹ پالیسی کے تحت 2000 روپے کے نوٹوں کو چلن سے نکالنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ حالانکہ ہر کسی کے پاس بینک جاکر اپنے پاس رکھے ہوئے 2 ہزار روپے کے نوٹ کو تبدیل کرنے کا پورا موقع ہوگا۔ 2000 کے نوٹوں کو واپس لینے کا مطلب یہ ہوگا کہ یہ نوٹ اب ہندوستان میں استعمال کے لیے دستیاب نہیں ہوں گے۔ 2000 روپے کا نوٹ ہندوستان میں قانونی ٹینڈر ہے، جس کا مطلب ہے کہ اسے سامان اور خدمات کی ادائیگی کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ڈیمونیٹائزیشن؛ قانونی کرنسی کو چلن سے نکالنے کا عمل۔ جعلی نوٹ مہنگائی کا باعث بنتے ہیں۔ 2000 کے نوٹ کی منسوخی سے ہندوستانی معیشت پر نمایاں اثر پڑنے کا امکان ہے۔ اس سے اقتصادی سرگرمیاں متاثر ہونے کا امکان ہے، کیونکہ عوام میں نقد رقم کا استعمال کم ہو سکتا ہے۔ 2000 کے نوٹ کو واپس لینے پر عوام کا ردعمل ملا جلا رہا ہے۔ کچھ لوگوں نے اس فیصلے کا خیرمقدم کیا ہے کیونکہ ان کا خیال ہے کہ اس سے بدعنوانی اور دھوکہ دہی کو کم کرنے میں مدد ملے گی۔ بہت سے لوگوں نے اس فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے پریشانی ہوگی اور عوام کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ مختصراً یہ کہنا مناسب ہو گا کہ 'متوازی کیش سسٹم' پوری دنیا میں کام کر رہا ہے۔ نقدی معیشت کو لندن، پیرس، زیورخ، امریکہ وغیرہ میں قانونی حیثیت حاصل ہے۔
نوٹ بندی کی بنیادی وجہ؛ کالے دھن، دہشت گردانہ سرگرمیوں پر قابو پانا اور 'شفافیت اور ٹیکس کے قوانین' پر عمل کرنے میں آسانی پیدا کرنا ہے۔ یہ سچ ہے کہ پچھلے کچھ سالوں سے لوگ 2000 روپے کے نوٹ کو قبول کرنا پسند نہیں کر رہے تھے۔ کووڈ-19 کی مدت کے بعد عوام کے پاس پیسہ بھی کم ہے۔ تب یہ صرف دھنا سیٹھوں یا بین الاقوامی کاروباری سرگرمیوں سے بھرپور فائدہ اٹھا رہا تھا۔ 30 ستمبر 2023 تک سب کچھ معمول پر آجائے گا۔ 2000 کے نوٹ کو واپس لینے سے 'کیش لیس انڈیا' کی طرف سفر کی رفتار تیز ہونے کی امید ہے۔
کئی سیاست دانوں کے گھروں سے ملنے والے نوٹ بکسوں میں صرف 2000 روپے کے نوٹ ملے۔ 'ڈیجیٹل انڈیا' کی کوششوں کے نتیجے میں حکومت ہند کئی سالوں سے 'کیش لیس سوسائٹی' کو فروغ دینے کی کوشش کر رہی ہے اور 2000 روپے کے نوٹ کی پابندی اس سمت میں ایک اہم قدم ثابت ہو سکتی ہے۔ چھوٹے تاجروں، مزدوروں، کسانوں اور متوسط طبقے میں پھر بھی کرنسی سرمایہ چلن میں رہے گا۔ نریندر مودی حکومت کو 'کسان وکاس پترا' اور 'اندرا وکاس پترا' جیسی اسکیموں کو دوبارہ لاگو کرنا چاہیے، تاکہ لوگ 'ٹیکس افسر' کے خوف کے بغیر ریزرو بینک کے والٹ میں اپنی جمع رقم کو وائٹ کرسکیں۔ اس سے سرکار خزانے کو بھرنے میں بھی مدد ملے گی۔
(مضمون نگار سینئر صحافی، تجزیہ کار ہیں اور سالیڈیٹری فار ہیومن رائٹس سے وابستہ ہیں)
singhnofficial@gmail.com
Comments
Post a Comment