www.roznamashara.com 02.04.2023 The History of RSS

ہندوراشٹرکاقیام اورڈاکٹربلی رام ہیڈگیوار

پروفیسر نیلم مہاجن سنگھ

آج کل جب ’ہندو راشٹر‘ پر بحث ہو رہی ہے۔بہت سے سیاسی طالب علم نہیں جانتے کہ اس لفظ کو سب سے پہلے کس نے استعمال کیا تھا۔ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ ملک کے سیاسی نظام میں قائدانہ رول ادا کیاہے۔ اس ہفتہ میں ڈاکٹر کیشو بلیرام ہیڈگیوار (یوم پیدائش:یکم اپریل 1889 - یوم وفات: 21  جون 1940) کو یاد کیاجارہاہے ، ان کو ’ڈاکٹر جی‘ بھی کہا جاتا ہے، وہ پیشہ سے ایک ڈاکٹر اور راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے بانی سرسنگھ چالک (چیف) تھے۔ ہیڈگیوار نے 1925 میں ناگپور میں آر ایس ایس کی بنیاد رکھی، آرایس ایس کی بنیاد ’ہندوتو‘کے نظریے سے ہندو راشٹر بنانے کی نیت سے‘ رکھی تھی۔ ڈاکٹر کیشو بلی رام ہیڈگیوار کا تعلق کندکورتھی، ان کا تعلق انگریزوں کے زمانے کے وسطی صوبے(سینٹرل پرووینس) انگریزوں کے زمانے کے ہندوستان (موجودہ نظام آباد، تلنگانہ) سے تھا۔ ہیڈگیوار کی پیدائش ناگپور میں تیلگو بولنے والے، دیشاستھ ’رگویدی برہمن‘ خاندان میں ہوئی تھی۔ ان کے والدین بلیرام پنت ہیڈگیوار اور ماں ریوتی بائی ایک معمولی خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ جب ہیڈگیوار تیرہ سال کے تھے۔ ان کے دونوں والدین 1902 میں طاعون کی وبا میں مر گئے۔ ہیڈگیوار کے چچا؛ بی ایس مونجے نے کیشو بلی رام ہیڈگیوار کو اچھی تعلیم دلائی اور نوجوان ہیڈگیوار کی سرپرست اور ان کے والد کی طرح تربیت کی۔ انھوں نے ناگپور کے ’نیل سٹی ہائی اسکول‘ میں تعلیم حاصل کی، جہاں سے انھیں اس وقت کی برطانوی سامراجی حکومت کے جاری کردہ سرکلر کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ’وندے ماترم‘ گانے پر نکال دیا گیا۔ نتیجے کے طور پر، انہیں یاوتمال میں نیشنل اسکول اور بعد میں پونے کے ہائی اسکول میں داخلہ لینا پڑا۔ جون 1916 میں کلکتہ میڈیکل کالج سے فراغت کے بعد، انھوں نے ایک سالہ تربیت حاصل کی اور 1917 میں بطور معالج ناگپور واپس آئے۔ہیڈگیوارمدبربنکم چندر چٹرجی کی تحریروں سے متاثر ہو کر بنگال میں انوشلن سمیتی میں شامل ہوگئے۔اس گروپ کی جڑیں ’ہندو تہذیب وثقافت‘ میں پیوست ہیں، آر ایس ایس کے قیام اور اس کی نشوونما ہندوتوکی طرف ایک اہم قدم تھا۔ ہیڈگیوار؛ ونائک دامودر ساورکر ’ہندوتوا‘ سے متاثر تھے۔ ڈاکٹر ہیڈگیوار سمرتھ رام داس کی ’داسبودھ‘ اور لوک مانیہ تلک کی کاوش ’گیتا رہسیہ‘ سے بھی بہت متاثر تھے۔ ان کے مکتوبات میں اکثر ’تکرام‘ کے اقتباسات شامل ہوتے تھے۔ 
ہیڈگیوار نے 1920 کی دہائی میں انڈین نیشنل کانگریس میں شمولیت اختیار کی، لیکن وہ کانگریس کی پالیسیوں اور سیاست سے ناامید ہو گئے۔ وہ کانگریس کے رضاکار ونگ - ’ہندوستانی سیوا دل‘ کے ایک سرگرم کارکن تھے۔ وہ لوک مانیہ بال گنگادھر تلک، ونائک دامودر ساورکر، بابا راؤ ساورکر، اروند گھوش اور بی ایس منجوسے بہت متاثر تھے۔ ان کا نظریہ تھا کہ ’ہندوؤں کی ثقافتی اور مذہبی ورثہ ہندوستانی قوم پرستی کی بنیاد ہونا چاہیے۔‘ ہیڈگیوار اور ان کے اس وقت پیروکاروں نے 1939 میں ایک اجلاس کے دوران آر ایس ایس کی بنیاد وجے دشمی کے دن رکھی گئی تھی، جس کا مقصد ہندو طبقہ کو اس کی ثقافتی اور روحانی ترویج کے لیے منظم کرنا تھا اور ’اکھنڈ بھارت‘ کے لیے ’مکمل آزادی‘ حاصل کرنے کا ایک ذریعہ بننا تھا۔ ہیڈگیوار نے ہندو تنظیم کے لیے ’ہندوراشٹر واد‘ کی اصطلاح تجویز کی، کیونکہ وہ ’قوم کے ساتھ ہندو تشخص کے نظریہ کو دوبارہ قائم کرنا' چاہتے تھے۔ ہیڈگیوار نے 1936 میں راشٹر سیویکا سمیتی نامی تنظیم کے خواتین ونگ کے قیام کی حمایت کی۔ بھیا جی دانی، بابا صاحب آپٹے، ایم ایس۔ گولوالکر، بالا صاحب دیورس اور مدھوکر راؤ بھاگوت اس کے سرگرم کارکن تھے۔ ان کی کوششوں سے یہ تنظیم ناگپور اور آس پاس کے اضلاع میں خوب بڑھ رہی تھی اور جلد ہی یہ دوسرے صوبوں میں پھیل گئی۔ ہیڈگیوار نے دوردرازمقامات پر جاکر نوجوانوں کو سنگھ کا کام کرنے کی ترغیب دی۔ آہستہ آہستہ ان کے تمام ساتھی انھیں پیار سے  ’ڈاکٹر جی‘ کہنے لگے۔ 1925 میں راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے قیام کے بعد، ہیڈگیوار نے گاندھی کی قیادت چلائی جانے والی ہندوستانی تحریک آزادی سے ایک مناسب فاصلہ برقرار رکھا۔ انھوں نے مقامی سوشل ورکروں کو آزادیٔ جدوجہد میں رضاکارانہ طور پر حصہ لینے کی ترغیب دی۔ آزادی کی تحریک میں سرگرمی کی کمی کو آر ایس ایس مخالف گروپوں نے شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ کچھ ذرائع کے مطابق، ہیڈگیوار آر ایس ایس کے کارکنوں کو گاندھی کی قیادت والی تحریک میں شامل نہ ہونے کی صلہ دے رہے تھے۔ آر ایس ایس کے سوانح نگار سی پی بھیشیکر کہتے ہیں، ’سنگھ کے قیام کے بعد، ’ڈاکٹر صاحب‘ نے اپنی تقاریر میں صرف ’ہندو تنظیم کی بات کی۔‘ قرارداد منظور کی، اور تمام ہندوستانیوں سے 26 جنوری 1930 کو یوم آزادی کے طور پر منانے کی اپیل کی، اورجب کانگریس نے دسمبر1929میں اپنے لاہور اجلاس میں ایک سرکلر جس میں آر ایس ایس کی تمام شاخوں پر زعفرانی پرچم لہرانے اور ہتھیاروں کی پوجا کرنے کو کہا گیا تھا۔ 26جنوری 1930 میں مہاتما گاندھی نے برطانوی حکومت کے خلاف ’ستیہ گرہ‘ کا اعلان کیاتھا۔ گاندھی جی نے خود اپنے ڈانڈی مارچ کا آغاز کرتے ہوئے ’نمک ستیہ گرہ‘ شروع کیا۔ اس میں ڈاکٹر ہیڈگیوار نے صرف ذاتی طور پر حصہ لینے کا فیصلہ کیا۔ ہیڈگیوار نے زور دے کرکہاتھا کہ انہوں نے 1930 کی سول نافرمانی کی تحریک میں انفرادی حیثیت میں حصہ لیا تھا، آر ایس ایس کے رکن کی حیثیت سے نہیں۔ ان کامقصد آرایس ایس کو سیاسی سرگرمیوں سے دور رکھنا تھا۔ ہیڈگیوار کے لیے،ہندوستان ایک قدیم تہذیب تھی اور آزادی کی جدوجہد تقریباً 800 سال کی غیر ملکی حکومت یعنی مغلوں اور انگریزوں کے اقتدار سے آزادی کے بعد ہندوؤں کے لیے ایک راشٹر قائم کرنے کی کوشش تھی۔ ہیڈگیوار کے مطابق، ترنگا ہندوستان کے قدیم تاریخ کی علامت نہیںہے۔ ہیڈگیوار نے کہا کہ آر ایس ایس کو صرف ’انسانوں کی تربیت‘ میں ہی شامل ہونا چاہیے۔ وہ ہندو سماج   کے فرسودہ رواج پر تنقید کرتے تھے۔ انہوں نے لکھا، ’آر ایس ایس کو پوری دنیا میں اچھے کردار اور محترم افراد کی تربیت اور تعلیم کے لیے پوری طرح وقف ہونا چاہیے۔‘ لکشمی بائی کیلکر وہ راشٹر سیویکا سمیتی کی بانی تھیں۔ تنظیم کے قیام سے پہلے کیلکر نے ڈاکٹر کے بی ہیڈگیوارکی حمایت کی تھی۔ ہیڈگیوار راشٹریہ سویم سیوک سنگھ میں ہی خواتین کی شاخ شروع کرنے کے لیے راضی کرنے کے لیے ان سے بات چیت کی۔ تاہم، ہیڈگیوار نے لکشمی بائی کیلکر کو مشورہ دیا کہ وہ ایک مکمل طور پر علیحدہ تنظیم قائم کریں، جو آرایس ایس سے الگ اور بالکل آزاد ہو، حالانکہ دونوں گروپ نظریاتی طور پر ایک جیسے تھے۔ اس کے بعد کیلکر نے 25 اکتوبر 1936 کو وردھا میں راشٹر سیویکا سمیتی کی بنیاد رکھی۔ اکثر ڈاکٹر ہیڈگیوار کمر کے پرانے درد کی شکایت تھی۔ انہوں نے اپنی ذمہ داریاں ایم ایس گولوالکر کو منتقل کردیںجو بعد میں آر ایس ایس کے سرسنگھ چالک بن گئے۔ انہوں نے 1940 میں سالانہ سنگھ شکشا ورگا میں شرکت کرتے ہوئے رضاکاروں کو اپنا آخری پیغام دیتے ہوئے کہا، ’آج میں اپنی آنکھوں کے سامنے ایک منی ہندو راشٹر بنتے دیکھ رہا ہوں۔‘ ان کا انتقال 21 جون 1940 کو ناگپور میں ہوا۔ ان کی آخری رسومات ناگپور کے ریشم باغ علاقے میں ادا کی گئیں، جسے بعد  ’ہیڈگیوار اسمرتی مندر‘ کے طور پر تیار کیا گیا۔ سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی 1999 میں ڈاک ٹکٹ جاری کرتے ہوئے کہاتھا؛
ڈاکٹر ہیڈگیوار کو ایک عظیم محب وطن، مجاہد آزادی اور قوم پرست قرار دیا۔ ہندوستان کے سابق صدر پرنب مکھرجی نے ناگپور میں ہیڈگیوار کی جائے پیدائش کا دورہ کرتے ہوئے ہیڈگیوار کو ’مادرِ وطن ہندوستان کا عظیم سپوت‘ قرار دیا۔ اسی لیے ڈاکٹر کیشو بلی رام ہیڈگیوار کا نام ہندو راشٹریہ کے ساتھ لیا جاتا ہے۔ تاریخ پرانے واقعات کے سلسلے کا نام ہے لیکن اس کا مختلف پہلوؤں سے تجزیہ کیا جانا چاہیے
PROF. NEELAM MAHAJAN SINGH

Comments