میں امن کے پھول یا دہشت کی زنجیر؟پروفیسر نیلم مہاجن سنگھمیں ابتدا میں یہ کہہ دینا چاہتی

https://twitter.com/neelamsinghLLB/status/1646206364115517447?t=wZ-yb4bG6b2JX_lrIgW4Hg&s=19

پنجاب میں امن کے پھول یا دہشت کی زنجیر؟
پروفیسر نیلم مہاجن سنگھ
میں ابتدا میں یہ کہہ دینا چاہتی ہوں کہ میں نے 1980 کی دہائی میں پنجاب میں دہشت گردی کو کور کیا تھا اور وہ بھی ایک نوعمر خاتون صحافی کے طور پر چھوٹے سے بچے سدھارتھ سنگھ کے ساتھ جس کو کوریج کے دوران اپنے ساتھ لے جاتی تھی۔ یہ کوئی آسان کام نہیں تھا۔ 80ویں کی دہائی میں صحافیوں نے دہشت گردی مسلح بغاوت اور قتل عام کو بہادری کے ساتھ کور کیا۔ کچھ صحافیوں کے ساتھ ایک انٹرویو میں میں نے سنت جرنیل سنگھ بھنڈراوالے کے ساتھ انٹرویو کیا تھا۔ 
بھنڈراوالے کے ساتھ میرے انٹرویو کے کچھ حصے ’ دی ویک‘ اور روی وار میگزینوں میں کور اسٹوری کے ساتھ شائع ہوئے۔ حال ہی میں ہندوستان کی سپریم کورٹ نے ایک آبزرویشن کیا کہ کیسے 80000پولیس والے امرت پال سنگھ کو گرفتار نہیں کرسکے۔ ’وارث پنجاب دے‘نئے انداز کا دہشت گرد امرت پال سنگھ اچانک کیسے منظرعام پر آیا؟ تاہم زمینی صورتحال کچھ بھی ہو، فیصلے کرنا مشکل ضرور ہے۔ پنجاب میں  دہشت گردی پنپ رہی ہے۔ 
پنجاب میں ایک جمہوری طریقہ سے منتخب حکومت ہے جس کی سربراہی عام آدمی پارٹی کے وزیر اعلیٰ بھگونت سنگھ مان کرتے ہیں۔ پنجاب ایک انتہائی حساس صوبہ ہے کیونکہ اس کی سرحدیں پاکستان سے ملتی ہیں اور افغانستان سے ’ڈرگ روٹ‘ کی وجہ سے یہ انتہائی غیر محفوظ ہے۔ واضح رہے کہ پنجاب کی موجودہ صورتحال اگرچہ اس کا جمہوری نظام ہے لیکن اس کا مقابلہ 1980 کی دہائی کی شورش سے نہیں کیا جا سکتا۔ درحقیقت میں وہ دور بہت خراب تھا اس زمانے میں لوگ بڑی بے دردی سے مارے گئے تھے، بے گناہ لوگوں کا قتل ہوتا تھا ۔ انتہا پسندوں کو ایک سیاسی جماعت کی سرپرستی بھی حاصل تھی، ایک بڑی سیاسی بھول کو جنم دے سکتی ہے۔ جیسے امرتسر کے گولڈن ٹیمپل پر فوج کا حملہ کو سکھ برادری کو آج تک فراموش نہیں کر سکی ۔ اس کے باوجود سکھوں نے حالات سے سمجھوتہ کرلیا۔ مسلح افراد اور مذہب میں تعلق کوئی نئی بات نہیں۔ 
مذہب اور ہتھیار تاریخی طور پر جڑے ہوئے ہیں،چاہے وہ ہندومت ہو، عیسائی، اسلام یا سکھ مت۔ ایک مہذب معاشرے میں مختلف مذاہب ایسی ہم آہنگی ضروری ہے۔ بدقسمتی سے، ہر مذہب دوسرے مذاہب پر اپنی برتری ظاہر کرنے کی کوشش کرتا ہے، حالانکہ تمام مذاہب ’خدا کی عظمت بیان کے لیے ایک ہی راستے کی طرف لے جاتے ہیں‘۔ ہم نے عالمی سطح پر دیکھا ہے کہ بڑی سیاسی جماعتیں مذہبی اور مسلح تحریکوں کو تحفظ فراہم کرتی ہیں۔ ہندوستان کے ایک وزیر اعظم نے سنت جرنیل سنگھ بھنڈرا والے کی سرپرستی کی۔ بلاشبہ  مقدس گولڈن ٹیمپل‘ میں ملک دشمن، خالصتان کے قیام کے لیے حامی سرگرمیاں ہو رہی تھیں، لیکن جنرل ایس سندر جی اور راجیو گاندھی کے دوست ارون سنگھ، جنہوں نے گولڈن ٹیمپل کا فضائی سروے بھی کیا تھا۔ ’دربار صاحب اور مقدس اکال تخت‘ میں فوجی کارروائی نے ہندوستان کی سیاسی تاریخ کو بدل دیا! اس کے نتیجے میں وزیر اعظم مسز اندرا گاندھی کو ان کے اپنے بندوق بردار محافظوں ستونت سنگھ اور بینت سنگھ نے وحشیانہ طریقہ سے قتل کر دیا۔ دہلی کے خونی فسادات کی تباہی کو سکھ آج تک نہیں بھول سکے ہیں! اندرا گاندھی کے قتل کے بعد سکھوں کے قتل عام میں ایک اندازے کے مطابق 3500 سکھ مارے گئے تھے۔ان واقعات نے سکھ نوجوانوں کی دو نسلوں کو بنیاد پرست بنا دیا۔ وزیر اعظم منموہن سنگھ اور محترمہ سونیا گاندھی، دربار صاحب پر فوجی حملے اور 1984 کے فسادات میں سکھوں کے قتل پر معافی مانگی تھی۔ بلاشبہ اندرا گاندھی کے مشیروں، گولڈن ٹیمپل سے دہشت گردوں کو نکالنے کے لیے کوئی اور طریقہ اختیار کرنا چاہیے تھا؟ سیاسی قیادت کے ساتھ اختلافات مختلف مذاہب کے نوجوانوں کی بنیاد پرستی کا سبب بن رہے ہیں۔ 
پنجاب میں امرت پال سنگھ کی ابھی بھی تلاش جاری ہے۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا امرت پال کو ’اوور پلے‘ کیا گیا ہے؟ ریاست سیاسی اور ممکنہ پولرائزیشن سے کیسے نمٹتی ہے یہ دیکھنا باقی ہے۔ ریپڈ ایکشن فورس کے اہلکاروں نے ’وارث پنجاب دے‘ کے سربراہ امرت پال سنگھ اور ان کے ساتھیوں کے خلاف کارروائی کے  دوران فلیگ مارچ کیا۔ یہ کہنا پڑے گا کہ امرت پال سنگھ کو اگست 2022 میں ہندوستان واپسی کے فوراً بعد گرفتار کر لیا جانا چاہیے تھا۔ اس کے مجرمانہ حرکتیں اس کے تقریباً فوراً بعد شروع ہو گئی تھی، یہاں تک کہ جب اس کی سرگرمیاں بڑھنے لگی۔ اس سے بھی بدتر بات یہ ہے کہ سیاسی اور انتظامی حلقوں کی بیان اور میڈیا کے جائزوں میں حالات بڑھا چڑھا کر پیش کیاگیا جو حقیقت پسندانہ نہیں تھا ۔ اس کو پلیٹ فارم فراہم کرائے گئے اگر ایسا نہ ہو تا تو اس کو اپنی بات رکھنے کے لیے پلیٹ فارم تلاش کرنے کے لیے جدوجہد کرنی پڑتی۔ 
ریاست اور اس کی ایجنسیوں کو اپنی ناکامیوں کے لیے جوابدہ ہونا چاہیے۔ سنسنی خیز میڈیا غیر ذمہ دارانہ  داستان گوئی غیر تعمیری رول ادا کیا۔ ’بھنڈراوالے (دوم)'، 1980 کی  ستمبر 1981 میں، پنجاب پولیس نے دمدمی ٹکسال کے سربراہ جرنیل سنگھ بھنڈراوالے کو ایم پی لالہ جگت نارائن، جالندھر سے شائع ہونے والے اخبار پنجاب کیسری کے چیف ایڈیٹر اور مالک، ہند سماچار گروپ آف پیپرز، جن کو 9 ستمبر کو گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔ ’قتل کی سازش میں مبینہ کردار‘ کے الزام میں گرفتاری کا فیصلہ کیا گیا۔ بھنڈراوالے نے 20 ستمبر 1981 کو چوک مہتا، امرتسر میں ایک ہجوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حکومت انہیں کسی بھی وقت مار سکتی ہے۔ پنجاب پولیس نے گزشتہ ہفتے امرت پال سنگھ کے خلاف کریک کارروائی شروع کی، بہت سے لوگوں نے ریاست کی موجودہ صورتحال اور 1980 کی دہائی کے اوائل کی صورت حال سے مقابلہ کرنا شروع کردیا۔ لیکن یہ حقیقت سے بہت دور ہے۔
 خلاصہ یہ ہے کہ امرت پال سنگھ نہ تو سنت ہے اور نہ ہی پنجاب کے نوجوانوں کے خیر خواہ ہے۔ وہ صرف ایک دہشت گرد ہے، جو دیپ سندھو کے قتل کے بعد ایک بین الاقوامی سازش کا حصہ ہے اور ہندوستان کے اقتدار اعلیٰ کو کمزور کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ پنجاب پولیس کے ڈائریکٹر جنرل کے (پی ایس گل، آئی پی ایس) نے سخت فیصلے لے کر پنجاب میں دہشت گردوں پر قابو پالیا تھا۔ تاہم ان پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا الزام بھی لگا۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ مرکزی اور پنجاب حکومت مل کر اس عجیب و غریب صورتحال پر قابو پالیں۔ پنجاب میں امن کے پھول کھلیں اور دہشت گردی کی زنجیریں ٹوٹیں، آج کے حالات کی ضرورت ہے۔ 
(مضمون نگار سینئر صحافی، تجزیہ کار ہیں اور سالیڈیٹری فار ہیومن رائٹس سے وابستہ ہیں)
singhnofficial@gmail.com
             PROF. NEELAM MAHAJAN SINGH 
LL. B. M.PHIL. M.A. St. Stephen's College, Television News Production, FTII, Pune
singhnofficial@gmail.com 

Comments